SIZE
2 / 6

میں نے محبت کر کے شادی کی تھی. رافیہ ہمارے پڑوس میں رہتی تھی اور میں اپنے محلے میں بہت لائق فائق لڑکا گردانہ جاتا تھا.

اس لیے محلے کے بچے اکثر کچھ پڑھنے کے لئے آجاتے تھے. ہم چونکہ متوسط طبقے کے لوگوں میں سے تھے، اس لئے محلے کے

لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے تعلیم ہی ایک ہتھیار تھا. میرے ماں باپ کو اس بات پر بہت فخر ہوتا جب میں یونیورسٹی سے

واپس آتا تو طالبان علم کا ایک گروہ میرا منتظر ہوتا ہے.

ان ہی میں ایک رافیہ بھی تھی، جسے میٹرک کے ہر پرچے میں، میں نے مدد دی تھی. اور سیکنڈ ڈویژن میں پاس ہوگئی. اسی طرح

دونوں گھرانے قریب ہوگئے. پھر..... ایف اے میں اس نے سارے مضمون مجھ سے پوچھ کر لیے.

سوکس اور انگریزی اسے میں نے ہی پڑھایا تھا. جب وہ بی اے میں پہنچی تو ملازمت کے سلسلے میں میرا تبادلۂ شہر سے باہر ہوگیا.

پھر کبھی کبھی میں گھر آیا کرتا تھا تو وہ پولیٹیکل سائنس کے ڈھیر سارے سوالات اور شکسپیر کے اقتباسات جمع کر کے رکھ چھوڑتی.

ایک دن اس نے نوتے بک سمیٹتے هوئے بڑی ادا سے کہا. " آپ اپنا ٹرانسفر اسی شہر میں کیوں نہیں کروا لیتے"؟

"کیوں"؟ میں نے پوچھا.

"اتنے دن تو ہوگئے آپکو گئے هوئے"

"تمہارے امتحان نزدیک آرہے ہیں، اس لیے"؟

"نہیں، آپ کے بغیر دل نہیں لگتا"

"ارے".....میں نے اسکو اس طرح دیکھنا چاہا، اس طرح اسکا مذاق اڑانا چاہا، جیسے کسی معصوم اور بیوقوف بچوں کا اڑاتے ہیں. وہ

تو میرے ہی سامنے جوان ہوئی تھی، مجھ سے بڑھا اس نے ڈانٹ کھائی تھی. تنہائی میں گھنٹوں بیٹھ کر میرے پاس پڑھائی کی تھی. میں

نے اسکو کبھی غور سے دیکھا تھا. جب کچھ کہنے کے لئے میں نے اسکے چہرے کو غور سے دیکھا تو میں لڑکھڑایا. اسکی سیاہ لمبی

پلکیں نیزوں کی طرح اوپر پیچھے ہو رہی تھی. اور اسکے ان چھوتے ہونٹ اس طرح پھڑپھڑا رہے تھے جیسے درخت کی چوٹی پر پتنگ

پھنسی ہو اور ہوا کے ہلکے سے جھونکے پر بھی پھڑ پھڑ کرنے لگتی ہو. اٹھارہ انیس سال کی لڑکی کے چہرے پر جیب سا اجالا تھا. میں

نے ابھی ابھی محسوس کیا کہ میرے سامنے احساس جگانے والی رافیہ کھڑی ہے. اس نے دوپٹہ سے اپنا پورا بدن ڈھکا ہوا تھااور پنسل سے

اپنے ہاتھ پر گل بوٹے بنا رہی تھی. مگر اسکے سارے تن میں چنگاریاں بھر گئیں تھی. اسی وقت وہ مجھے گلاب کی شاخ پر تازہ تازہ کھلا

ہوا پھول لگ رہی تھی جسکی پنکھڑیوں پر رات کے کسی لمحے میں شبنم کے موتی گر گئے تھے اور اب اس سے سمبھالے نہیں جا رہے تھے.

"کیوں نہیں لگتا بھی تمہارا دل میرے بغیر"؟ میں نے آپکو انداز کو بدلے بغیر اسی لہجے میں کہا جیسے مجھے کچھ کہنا ہی تھا. " جب کہ سارے

محلے کا دل میرے بغیر لگ گیا ہے".