SIZE
4 / 7

اگلی صبح سارے گھر میں ڈھنڈھیا مچی تھی کہ منیا کی انگوٹھی کہیں کھو گئی. پورا گھر چھان مارا مگر انگوٹھی نہیں ملی. زیتون خالہ

کو خبر نہ پھنچے، ورنہ خوب واویلا کریں گی. سب کی یہی کوشش تھی.

منیا کی بھابھی اور بہن کو سخت غصّہ تھا منیا کی لاپرواہی پر.

"ایک تو خدا خدا کر کے رشتہ ہوا وہ بھی ایسا شاندار اور اس ناقدری کو کوئی قدر ہی نہیں. ذرا جو ذمہ داری دکھائی ہو. آپا نورین بولے جا رہیں تھی.

ارسلان نے رضیہ کو اوپر لے جا کر چوبارے کی صفائی کروائی. سامان ٹھکانے لگوایا مگر یہاں تو کپڑوں والی کوئی الماری نہیں تھی. کپڑے

کہاں رکھے جاتے.

"اس لیے تو سب آپ سے بولتے ہیں، شادی کر لیں. سب کچھ خود ٹھیک ہو جاتے گا. ہوئی ہوتی شادی تو کس کی مجال تھی کہ اپکا سامان اٹھا

کر اوپر پھینک دیتا". وہ ان پڑھ رضیہ اس گھڑی انہیں سیانی لگی مگر اب یہ باتیں فضول تھیں. شادی کا صفحہ وہ بہت پہلے اپنی زندگی

سے پھاڑ چکے تھے. شادی کا مطلب تو ذمہ داری تھا وہ تو خود اپنی ذمہ داری اٹھانے سے قاصر تھے. کسی دوسرے کی کیا اٹھا پاتے.

پھر بچے ہو جاتے تو انکے ہزار بکہیڑ ے.

وہ بہت پہلے کانوں کو ہاتھ لگا چکے تھے.

منیا شاید اپنی انگوٹھی تلاشتی ان کے کمرے تک پہنچی.

"سیلانی بھیا! کپڑے کہاں رکھیں گے"؟ وہ تشویش سے بولی.

"کیا سیلانی بھیا، سیلانی بھیا لگا رکھی ہے. سیدھا ارسلان بھائی نہیں کہ سکتی؟" وہ جو تپے بیٹھے تھے اس پر الٹ پڑے.

"مگر آپ یہاں کیسے رہیں گے کیسے؟ یہاں تو....."

"کیوں یہاں کھٹمل ہیں یا بچھو؟" وہ چڑ کر بولی تو وہ خاموشی سے چلی گئی.

اور اس بات کا پتا انکو اگلی رات ہی چل گیا، جب برسات کی پہلی موسلادھار جھڑی لگی اور وہ مزے سے بستر میں دبکے سو رہے تھے.

جگہ جگہ ان پر باران رحمت برسنے لگی وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے. چھت جگہ جگہ سے ٹپک رہی تھی.

تھوڑی دیر میں انکا بیڈ اور کمرہ تالاب کا منظر پیش کرنے لگا. وہ ایک کونے میں پریشان ہوکر بیٹھ گئے.

...........................................