SIZE
2 / 11

" یہ دل بھی کیا چیز ہے۔ زلیل کرا کر رکھ دیتا ہے۔" اس نے خود کہ کوسا۔ " اخر اس پلوشہ میں جو مجھے اس قدر اچھی لگتی ہے ' بس بڑی بڑی انکھیں جنہیں دیکھتے ہی ان میں ڈوب جانے کو دل چاھتا ہے۔ سویٹ سی چھوٹی سی ناک جسے چڑھا کر جب وہ بولتی ہے تو خوامخواہ ہی اس پر پیار آ جاتا ہے۔ گالوں پر پڑنے والے ڈمپل جو جان نکالنے کو کافی ہیں ۔" وہ سوچتے سوچتے پٹڑی سے اترنے لگا تھا۔

چچی کی وفات تب ہوئ تھی جب حمدان ایف ایس سی کر رہا تھا ۔ کافی عرصے تک تو سعید چچا اور حمدان اس نا گہانی موت سے سنبھلے ہی نہیں اور جب حالات کچھ معمول پر آۓ تو سب رشتہ داروں نے سعید چچا پر دباؤ ڈالا کہ وہ دوسری شادی کر لیں حتی کہ حمدان کو بھی اس پر کوئ اعتراض نہ تھا۔ وہ ایک عملی سوچ رکھنے والا سمجھ دار لڑکا تھا ' جانتا تھا کہ باپ کو سہارے اور ساتھی کی ضرورت ہے' اس لیے فضول جزباتی پن دکھانے کی بجاۓ اس نے ہر حال میں سعید کو اپنی حمایت کا یقین دلایا تھا لیکن سعید صاحب کا دل چچی کی وفات کے بعد ذکر الہی کی طرف مڑ چکا تھا۔

چناچہ اب کافی عرصے سے صورت حال یہ تھی کہ افس کے اوقات کو نکال کر سارا وقت سعید چچا اور حمدان سعید نیچے حمید صاحب کے پورشن میں ہی گزارتے تھے ۔ ان حالات میں جب راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا اچانک حمدان سعید کو پلوشہ حمید سے محبت ہو گئ۔ اب اگر وہ اپنے طور پر صرف محبت کرتا پھر تو کوئ مسلہ نہ تھا لیکن وہ اپنی محبت کو عملی شکل دینے کے لیے اس سے شادی کا اظہار کر رہا تھا۔ اور گھر میں سب بڑے اس کی اس خواہش پر دل و جان سے راضی تھے سواۓ پلوشہ کے۔

وہ ایک خوابوں میں رہنے والی لڑکی تھی جسے شادی کے لیے ناولوں والا ہیرو چاہیے تھا۔ وہ ہیرو جو چپکے چپکے ہیروئین کی سالگرہ مناتا ہے۔ کھانے پکا کر اس کے سامنے رکھتا ہےاور کسی بچے کی مانند ہیروئین کے سب ناز اور نخرے اٹھا تا ہے ۔ وہ کچھ دیر ایسے ہیرو کا انتظار کرنا چاہتی تھی لیکن حمدان نے سب کچھ چوپٹ کر کے رکھ دیا تھا۔

وہ پہلے بھی اسے کچھ خاص نہیں بھاتا تھالیکن اب تو اسے دیکھتے ہی پلوشہ کو آگ لگ جاتی تھی وہ تو بھلا ہوا حمید صاحب کا جنہوں نے اس رشتے کے لیے پلوشہ کی مرضی کی شرط رکھ دی تھی ورنہ راضوانہ بیگم کا بس چلتا تو چٹ منگنی پٹ بیاہ کر کے پلوشہ کو اوپر والے پورشن میں بھیج دیتیں۔

" مما! چاند نظر آ گیا ہے۔ کل پہلا روزہ ہو گا۔" پلوشہ نے کچن میں داخل ہو کر ماں کو اطلاع دی تھی۔

"چلو مبارک ہو۔"رضوانہ بیگم نے روٹی بیلتے ہوۓ بیٹی کو دیکھا ۔" تم مان جاؤ تو اس عید پر تمہاری اور حمدان کی منگنی کر دیں گے۔"

" افوہ مما!" وہ بری طرح جھنجھلائ تھی۔ " اپ سب تو میرے پیچھے ہی پڑ گۓ ہیں۔ یہ بتائیں کہ پکایا کیا ہے۔" اس نے اگے بڑھ کر پتیلی کا ڈھکن اٹھایا اور چٹخارہ لیا۔" واو! کریلے گوشت۔"

رضوانہ بیگم نے اخری روٹی توے سے اتار کر دستر خوان میں لپیٹی۔" تم کھانا پکاؤ۔"