SIZE
4 / 13

دبے دبے قدم اٹھاتی . دبی دبی سسکیوں اور بھنبھناہٹوں کا سراغ پاتی وہ چمنیوں والے کمرے کے باہر جا کھڑی ہوئی .

" ہم چوڑی بیچتے ہیں . چوڑی. یہ چوڑی ایسے ہی بن اور بک نہیں جاتی . جان جلانی پڑتی ہے . کانچ کے چیرے اور ان سے نکلے خون سے ہم رنگتے ہیں ان چوڑیوں کو . کم بخت ' کمینہ . کیڑے پڑیں اس رذیل کے اور تم دونوں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ ہم صرف " چوڑی" بیچتے ہیں .

" اب جاؤ سو جاؤ . کرتی ہوں کچھ ....کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا ."

اور وہ " کچھ نہ کچھ " مینا کے پہیوں کو مزید تیز کر گیا تھا .

مینا کے پر ایک بار پھر کھول دیے گئے تھے . اسے اڑنا تھا کیونکہ وہ اڑنے کے لئے ہی پیدا کی گئی تھی . چھوٹا مدرسے کے لباس میں سر پہ ٹوپی جمائےمینا کی پرواز کا ساتھ دینے میں ناکام تھا . اس کا ہاتھ تھامے بس بھاگے چلا جا رہا تھا . کچا قلا سے جو بھاگنا شروع ہوئے تو اب پھولی سانسوں ' دوپٹے کی بکل جو پیروں سے ذرا اوپر تھی . گیارہ سالہ مینا اور نو سالہ چھوٹا . ایک ددوسرے کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے وہ دونوں "ریشم گلی " میں کھڑے تھے .

مینا کے کانوں میں اس کی ماں کی کرخت آواز گونج رہی تھی . " یہ چھوٹے کا ہاتھ پکڑ اور اور بھائی نواب کے پاس جا اور یاد رکھنا چھوٹے ....! بہن کا ہاتھ نہ چھوڑنا اور تو یاد رکھنا کہ تیرا ہاتھ صرف چھوٹا ہی پکڑ سکتا ہے ."

چچا نواب کو ریشم گلی میں ڈھونڈتی یہ سوچ رہی تھی کہ کہ اماں نے اسے بڑبڑا کر بھیجا ہے ' لیکن دونوں اس بات سے بے خبر تھے کہ کچا قلا سے ریشم گلی کی پندرہ منٹ کی دوڑ نے چھوٹے کو " چھوٹے " سے " بڑا" بنا دیا تھا . اسے مینا کا سربراہ بنا کر بھیجا گیا تھا .

اس دن کے بعد سے اس میں بہت تبدیلیاں آئیں. . چھوٹے کا مدرسے جانا بند ہو گیا . اب وہ چچا نواب کے ٹھیلے کے ساتھ والی پلاسٹک کے برتنوں کی دکان پہ ملازم ہو گیا تھا . بڑی آپا کا رشتہ نواب چچا کے چھوٹے بھائی سے طے کر دیا گیا تھا .

دن میں سب بہنیں چوڑیوں کی جوڑائی کرتی تھیں . شام دھلے مینا کو آپا نے قرض پر لئے گئے سامان سے چوڑی کی سجاوٹ کا کام لینا شروع کر دیا . . دن بھر مینا شیشے کی چوڑی کے ساتھ ہاتھ جلاتی اور شام کو دھات کی چوڑی کے لئے گوٹے ' ویلوٹ اور سلک سے پھول بوٹے بنا کر گوندے سے جوڑتی ' لیکن پھول بوٹے بنانے میں زیادہ مزہ تھا . مینا اور اس سے چھوٹی سات سالہ بالی یہ کام جلد سیکھ گئی تھیں . ' لیکن ایک مسلہ تھا ... بجلی .... رات کو کام کرنے کے لئے بجلی درکار تھی ' لیکن اماں نے اس کا حل بھی ڈھونڈ لیا .

ایک شام اماں مینا اور بالی کو بھی بازار لے گئی . ان کے گھر ایک بلب جلنا محال تھا ' لیکن بازار میں تو روشنیوں کا سیلاب تھا . چچا نواب کے ٹھیلے پہ کھڑے جب مینا بازار میں سے گزرتے لوگوں کو دور کھڑی ریڑھی سے چپس خریدتے دیکھ رہی تھی تب اماں ان کی بنائی چوڑیاں چچا نواب کو فروخت کر رہی تھیں .چچا نواب نے ہی ان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ سیدھا دکانداروں کو مال سپلائی کریں کیونکہ ٹھیکیدار اور بچولئے محنت زیادہ وصولتے ہیں اور اجرت کم دیتے ہیں ' انہوں نے یہ بھی امید دلائی تھی کہ وہ دوسرے ٹھیلے والوں کو بھی ان کا مال دکھائیں گے .