SIZE
1 / 13

وہ مینا تھی ' درختوں پر چہچہاتی ' پروں کو پھیلاتی ' بل کھا کھا کر اڑ جاتی . اپنی آواز سے فضا کو مہکاتی ' چوڑیوں کی کھنک کے ساتھ راگ الاپتی ... وہ مینا تھی . سحر میں حمد و ثنا کرتی .... شام میں کلمہ شکر پڑھتی ...آنگن میں پھدکتی .... دانہ دنکا چگتی ... کھیلتی ....

دن بڑے روشن روشن تھے کہ یک دم سمت غائب سے ایک آندھی چلی اور سب کچھ تہس نہس ہو گیا . وہ جس کی چہکار آنگن کی فضاؤں میں گونجتی تھی . اہ و فغاں میں بدلنے لگی . کیونکہ چہکاریں باپ کی چھتر چھایا میں ہی گونجتی ہیں . جب چھت گر جاتی ہے تو گھروندہ غیر محفوظ ہو جاتا ہے . پھر یہ گونجتی چہکاریں صیاد اور درندوں کے لئے دعوت عام ہو جاتی ہیں . پھر یوں ہوا کہ چہکاریں بند ہو گئیں . انھیں بند ہونا ہی پڑا کیونکہ مینا نڈھال ہو گئی تھی . بانسری بھی تب ہی سر اٹھاتی ہے جب اس میں سے پھونک گزرتی ہے . بھوک سے نڈھال اس مینا میں اتنی توانائی نہیں تھی کہ پھونک بھی بھر سکے .

ایک صبح جب آنگن کی فضائیں نوحہ کناں تھیں . ساری لڑکیاں کمروں میں دبکی کل کے انجانے خوف میں گھل رہی تھیں . باورچی خانہ اور مرتبان اور ان مرتبانوں کے پیندے تک صاف ہو چکے جیسے آخری بھور ڈھونڈنے کی بھی تگ و دو کی گئی ہو تو ایسے ٹھہرے ہوئے موت کے سکوت جیسے گھر میں اماں نے شور برپا کر دیا . انہوں نے سب سے پہلے وہ چوڑیاں باہر نکالیں جن کی جوڑائی کرنا باقی تھا .دو دن سے لڑکا پوچھنے آ رہا تھا . پچھلے ہفتے تو میت کا گھر تصور کر کے ٹھیکیدار نے لڑکا نہیں بھیجا تھا ' لیکن کب تک ....

" چلو لڑکیو ! جلاؤ چمنیاں ' بیٹھو اپنی اپنی جگہ اور ان کی جوڑائی کرو ."

لڑکیوں نے انھیں تعجب سے دیکھا . کل تک جو اماں سر پر دوپٹہ باندھے سسکیوں کے درمیان کھانس کھانس کر عہدہ موئی ہوئی جاتی تھیں ' ان کی آواز میں یہ گونج کہاں سے آ گئی . وہ منہار کی بیوی تھیں . کتنی تپش پر شیشہ پگھلتا ہے اور پھر اس پگھلے شیشے کو کیسے پٹخنا ہے ' وہ خوب جانتی تھیں . جب لڑکیاں ٹس سے مس نہ ہوئیں بلکہ منجھلی کی ہچکی بندھ گئی تو اماں نے سب سے پہلے اسے ہی پٹخا .

" رو اور رو .... بس روتی جا پھر ان ہی آنسوؤں سے ان چھوٹوں کا پیٹ بھرنا . اے چھوٹے ادھر آ ' یہ اس کے گال سے آنسو اٹھا اور پی ." اب وہ چھوٹے کو کندھے سے پکڑے جھنجھوڑ رہی تھی . " تجھے بھوک لگی تھی نا رات کو بھی روتا رہا ہے . تو لے اب یہ اسی جوگی رہ گئی ہے کہ ان سے ہی پیٹ بھرے تیرا ." آٹھوں کے آٹھوں بچے سہم گئے . انھیں لگا کہ باپ چلا گیا دنیا سے اور ماں ہو گئی ہے پاگل . بڑی آپا ہی آگے آئیں. اور چھوٹے کو اماں کی گرفت سے چھڑایا.