SIZE
5 / 14

" وہاں پچھلی طرف جو پکی سڑک ہے وہاں کچھ غنڈے چاقو لئے گھوم رہے ہیں . جو بھی راہ گیر نظر آتا ہے اسے لوٹ لیتے ہیں ..... میں ..... مجھے ..... یہ ....." اس نے کہتے ہوئے اپنا بازو آگے کیا جس پر کٹ لگا تھا . تقریبا تین انچ آستین پھٹ کر چاقو بنا کسی رکاوٹ کے بازو میں لگا تھا . جس سے اب خون رس رہا تھا . میں نے زخم کو بغور دیکھا . کٹ معمولی تھا .

" تمہیں وہاں جانے کی کیا ضرورت تھی . وہ بھی اتنی رات کو ." میرے لہجے میں تھوڑی برہمی آ گئی .

" میں چہل قدمی کی غرض سے پچھلی سڑک تک گیا . وہاں ایک عورت بہت سارا سامان لئے کنارے کھڑے ہانپ رہی تھی .میں ان کا سامان گھر پہنچانے کے لئے کچی بستی تک گیا تھا . سامان گھر پہنچا کر گھر واپس پلٹا تو ان لوگوں نے مجھے پکڑ لیا .وہ چار ، پانچ تھے اور ان کے ہاتھ میں بڑے بڑے چاقو تھے ."

اسکی آنکھیں ہراس سے پھیل گئی تھیں .

" انہوں نے مجھ سے میرا موبائل فون مانگا . میں نے کہا میرے پاس نہیں ہے تو انہوں نے مجھے تھپڑ مارا اور میری تلاشی لینے لگے . میرے پاس پیسے بھی تھوڑے تھے وہ بگڑ گئے . وہ لوگ شاید نشے میں بھی تھے . مجھے کہا بھاگو ! میں نے خوف زدہ ہو کر انھیں دیکھا تو اور زور سے گرجے اور چاقو لہراۓ کہ بھاگو ورنہ سینے میں اتار دیں گے . میں بھاگنے لگا تو میرے پیچھے دوڑنے لگے . مجھے یہاں تک چھوڑ کر گئے ہیں . اسی بھاگنے میں یہ کٹ بھی لگ گیا ." میری اور خاور کی نظریں اس کے چہرے پر ٹپکتے خوف و دہشت پر تھیں .

" اور ....اور پتا ہے حماد بھائی .... وہ لوگ یہیں رہتے ہیں . یہیں کیمپ میں ....." وہ کیمپ پر زور دے کر بولا . تو میں اور خاور دونوں ایک دوسرے کو ٹھٹک کر دیکھنے لگے .

" یہاں ....؟" میں نے اچھنبے سے عادل کو دیکھا .

" ہاں .... یہیں . میں نے کئی بار ان لوگوں کو دیکھا ہے ، کھانا لیتے وقت یہاں پھرتے ہوئے ." وہ کچھ زیادہ ہی خوف زد تھا .

" عادل بکواس نہ کرو اتنے خطرناک لوگوں کا ہمارے کیمپ میں کیا کام ہے ، تمہیں وہم ہو گیا ہے . چلو خیمہ میں ، تمہاری ڈریسنگ کر دوں." میں نے اسکا دھیان بٹانے کی کوشش کی .

" نہیں حماد بھائی ! میں نے ان لوگوں کو بارہا دیکھا ہے مجھے وہم نہیں ہو رہا .وہ یہیں رہتے ہیں ."

اس کے لہجے نے ضد کا چولا پہنا اور میں نے ہتھیار پھینک اسکی بات مان لی .

" اچھا چلو ٹھیک ہے . اب جب تمہیں وہ لوگ نظر آئیں تو مجھے بتانا . اب چلو کافی رات ہو چکی ہے ."

میں نے اسے بازو سے پکڑ کر کھڑا کر دیا اور خاور کی طرف دیکھا اور پوری گفتگو کے دوران ایک لفظ نہیں بولا تھا اس کا چہرہ گہری سوچ کا غماز تھا .

" گڑیا! تم نے احمد بلال کو دیکھا ہے ؟" میں نے مٹی میں کھیلتی ایک بچی سے پوچھا. کل دوپہر کے بعد سے مجھے احمد بلال دکھائی نہیں دیا . اب دوسرے دن شام ہونے کو آئی تھی .

" اس کی طبیعت خراب ہے ، کھیلنے نہیں آ رہا ." وہ معصومیت سے کہہ کر پھر کھیل میں مصروف ہو گئی . میں احمد کے خیمہ کی طرف چلنے لگا .

" خاموش ہو جا . نہیں تو مار کے منہ توڑ دوں گا تیرا سمجھی ! بڑی آئی مجھے سمجھانے والی. اگر یہ کہیں غائب ہوئی تو تیری اور تیرے بچے کی جان لے لوں گا . سمجھا دینا اس کو بھی ."

کسی مرد کی بھاری اور خوفناک آواز میرے کانوں میں پڑی میں ابھی احمد بلال کے خیمہ کے باہر کھڑا تذبذب کا شکار تھا کہ احمد سے کیسے ملوں .