SIZE
1 / 14

" نہیں ! میں نہیں جاؤں گی . مجھے چھوڑیں رفیق بھائی ! آپ کو الله کا واسطہ . رفیق بھائی یہ ظلم مت کریں . مجھے چھوڑ دیں ، مجھے نہیں جانا . مجھے کہیں نہیں جانا . الله میاں ! مجھے بچاؤ الله میاں....!"

وہ اپنے مخصوص حلیے میں رفیق کے ساتھ گھسیٹتی ہوئی ایک ہاتھ سے اپنا حجاب سنبھالے جو اس نے چادر سے کیا ہوا تھا اور دوسرا ہاتھ رفیق کے آہنی ہاتھوں سے چھڑانے کی بھرپور کوشش کرتے ہوئے برابر مدد کے لئے پکار رہی تھی . تفیق اسے ہاتھ سے پکڑ کر گھسیٹتا ہوا پچھلی کچی بستی کی طرف بڑھ رہا تھا .

مجھے اور خاور کو یہ منظر دور سے ہی نظر آ گیا . اس پاس کے خیمے کے لوگ بھی متجسس ہو کر باہر نکل آئے تھے .

" عامر کو کال کرو فورا." میں نے اس سمت تقریبآ دوڑتے ہوئے خاور سے کہا جو میرے پیچھے ہی تھا .

" چھوڑو اسے ...." میں نے برہم لہجے میں چلا کر کہا .

رفیق چونک کر رکا پھر پیچھے مڑ کر دیکھا . وہ مسلسل اس سے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی .

" او بابو ! جاؤ اپنا کام کرو ." اس نے بے پروائی سے کہہ کر آگے قدم بڑھا دیے.

" میں نے کہا چھوڑو اسے ." میں نے بپھرے ہوئے انداز میں کہا .

" نہ چھوڑیں تو کیا کر لے گا ؟" وہ برابر اس کی گرفت میں مچل رہی تھی .رفیق کا طیش دلاتا لہجہ مجھے بے قابو کر گیا .

میں نے اگے بڑھ کر ایک زناٹے دار تھپڑ رفیق کے منہ پر دے مارا . جواب میں اس نے اپنی کمر میں چھپایا ہوا چمکدار خنجر نکال لیا .

میں ششدر رہ گیا . رفیق کے خنجر نکالنے کی وجہ سے نہیں بلکہ جو منظر میری آنکھوں نے دیکھا مجھے اس پر یقین کرنا دوبھر لگا . وہ جو اب تک ایک ہاتھ سے اپنے حجاب کو مضبوطی سے تھامے ہوئے تھی . دہل کر اس نے اپنا حجاب چھوڑ دیا تھا اور جو سرخ سرخ متورم چہرہ حجاب سے برآمد ہوا اس نے مجھے ہلنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا. رفیق نے اس کا ہاتھ چھوڑا اور خنجر لہراتا میری طرف بڑھا . میرے ہوش و حواس سلب ہو گئے تھے کہ اچانک " ٹھاہ" کی آواز نے مجھے چونکا دیا . میرے سامنے کے منظر میں رفیق اپنی خون سے تر ہتھیلی لئے زمین پر بیٹھ رہا تھا . میں نے مڑ کر دیکھا . انسپکٹر عامر پستول رفیق پر تانے کھڑا تھا . خاور نے آگے بڑھ کر میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا .

" تم ٹھیک ہو ؟" میں نے غائب دماغی سے ایک نظر خاور اور دوسری نظر اس پر ڈالی جو گھٹنوں میں سر دیے زمین پر بیٹھی لرز رہی تھی یا شاید رو رہی تھی .

چینل میدان میں حد نظر قطار میں کھڑے خیمے نیلے آسمان کی گود میں گرمی برساتا آتشیں تھال سلگ رہا تھا . کئی آوازیں میرے کانوں کے در کھٹکھٹا رہی تھیں ، کچھ بچے میرے سامنے گول گول گھومتے ہوئے کھیل رہے تھے . کہیں کوئی سسک رہا تھا . اسکی سسکیوں کی آواز میرے بائیں پہلو میں اتر رہی تھیں . کچھ آوازیں کام کرتے ہوئے رضا کاروں کی تھیں جو امدادی اشیا کی تقسیم کے انتظامات میں مصروف ادھر ادھر پھر رہے تھے .

" اماں.... اماں.... کھانا دے نا! مجھے بھوک لگی ہے ."