SIZE
3 / 9

میرے والدین کی اچانک وفات نے میری زندگی کا رخ ہی موڑ دیا ... اب میں ایک پر اعتماد بیٹی نہیں رہی بلکہ ہراساں ، خوفزدہ بہن بن گئی اور ہم اپنی پھوپھی کے پاس آ گئے اور وہ ہمارے لئے ایک ڈھال بن گئیں باوجودیکہ وہ خود ایک کمزور اور سسرال کی ستائی ہوئی عورت تھیں لیکن پھر بھی انہوں نے ہمارے برے وقت میں ہمارا ساتھ دیا لیکن وہ میری عمر، میری ذہانت سے اور میری قابلیت سے ہراساں ہو گئیں اور انہوں نے تیزی سے میرے رشتے کی تلاش شروع کر دی . میرے سامنے بہت سے مسائل تھے ، میرے چھوٹے بہن بھی ، میرے باپ کی عزت ، میری ماں کا رکھ رکھاؤ ، میں ایک بایئس سال کی لڑکی نہیں رہی بلکہ اپنے کندھوں پر ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھاۓ ایک چالیس سالہ فکر مند مزدور بن گئی . میں اکثر اپنے رب سے سوال کرتی کہ میری جوانی کہاں گئی ؟ کیونکہ میرے سینے میں کبھی ایک دوشیزہ کا دل نہ دھڑکا ، میرے اندر تو ایک ماں رہتی تھی ، ڈری سہمی ، ہراساں اولاد کے مستقبل کے لئے فکر مند ماں ...

سو میں شادی سے انکاری ہو گئی لیکن لوگوں کے طعنوں اور سوالوں نے میرے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچ لی شاید وہ وقت میری زندگی کا بدترین وقت تھا . اور پھر کاتب تقدیر نے میری تقدیر کی بساط پر اک مہرہ اور آگے بڑھایا اور میری شادی ہو گئی .

زندگی کا نیا باب خوشگوار نہیں تھا . میں جو اک دکھی ، پریشان اور ہراساں لڑکی تھی میری باگ ڈور اک ضدی ، اصول پرست اور سخت گیر مرد کے ہاتھ میں دے دی گئی . اور اس مرحلے پر میرے وجود میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئیں. لیکن اگر زندگی آپکی مرضی کے مطابق میسر ہو تو وہ اصل زندگی تو نہیں ہوئی . زندگی تو یہی ہے کہ وہ آپ کی مرضی کے خلاف بھی ہو تو آپ اس کو خوش اسلوبی سے گزاریں .

میرے سامنے شطرنج کی بساط تھی اور کھیلنے والا سارے مہرے اپنی مرضی سے رکھ رہا تھا . میں خالی ہاتھ اور خالی دامن تھی ... لیکن نہیں ... میں خالی ہاتھ نہیں تھی ... میرے سرٹیفیکیٹ ، میری ڈگریاں ، میرے ایوارڈ ، میرے ماں باپ کی تربیت ... ان کے استعمال کا وقت آ چکا تھا کیونکہ میں سمجھ چکی تھی کہ میں ایک مشکل شادی شدہ زندگی میں قدم رکھ چکی ہوں . مجھے قدم جمانے کے لئے اپنی زمین بھی خود ہی بچھانی تھی .

میری سسرال کا ہر اک فرد منجھا ہوا سیاستدان تھا اور میرے شوہر ان کے اشاروں پر ناچنے والے کٹھ پتلی .

میں نے اپنی زبان کو فی الحال الماری میں بند کر دیا تھا . شاید نا ممکنات سے لڑنا ہی زندگی ہے . میری ساس نندیں میری خوبصورتی اور ذہانت سے ہراساں تھیں اور یوں میرے خلاف ایک بڑا محاذ کھل گیا . میری اچھائیوں کو برائیا ں بنا کر پیش کیا جاتا ... اور میرا سارا دن دبی ، دبی وضاحتیں دیتے اور معافیاں مانگتے ہی گزر جاتا . میرے پاس کوئی کاندھا ایسا نہیں تھا جس پر سر رکھ کر میں روتی.

میں جانتی تھی کہ اگر مجھے زندہ رہنا ہے تو کسی کو یہ پتا نہیں چلنا چاہیے کہ علی کی زندگی میں اور ان کے گھر والوں کی زندگی میں میری کیا اہمیت ہے . میری حیثیت ان کے نزدیک کچھ نہیں تھی اور میں نے اپنی یہ ازدواجی حیثیت سب سے چھپانے کی ٹھان لی . اس وقت تک جب تک میرے قدموں تلے زمین نہیں آ جاتی .