SIZE
1 / 10

" ابّا چلے گئے تمہارے ؟" رفعت بیگم نے کھڑکی سے سر نکال کر ڈیوڑھی کی جانب دیکھنے کی ناکام کوشش کی . ندا ناشتے کی ٹرے اٹھا کر چھوٹی میز کے نزدیک آ بیٹھی .

" چلے گئے ہیں امی . اطمینان رکھیے اور بولنا شروع کر دیں ."

" ہٹ بد تمیز ." رفعت نے خجل ہو کر اگلا پراٹھا بیلنا شروع کیا ." فرسٹ نہیں ہے میرے پاس کے تمہارے باپ کا پیچھا لے کر بیٹھ جاؤں ' یہاں سر کھجانے کی فرصت نہیں ملتی ' باتوں کے لئے کہاں سے ٹائم نکلے گا . " وہ عادت سے مجبور ' نہ بولنے کا شکوہ کرتے مسلسل بولے چلی جا رہی تھیں . عافیہ نے بھی کتابیں میز پر رکھ کے دوسری کرسی سنمبھالی اور آنکھوں آنکھوں سے اشارے میں بہن سے استفسار کیا . اس نے کندھے اچکا کر دوبارہ ماں کو دیکھا .

" آپ پوچھ تو ایسے رہی تھیں جیسے کوئی بات کرنی ہو ." ندا نے انھیں پہلے جملے کا پر اسرار انداز یاد دلایا تو رفعت نے اپنی کم عقلی پر تاسف سے اپنا ماتھا پیٹا. ہاتھ پر لگا . خشک آٹا پیشانی پر تین انگلیوں کے نشان چھوڑ گیا ' ندا اور عافیہ نے بمشکل ہنسی ضبط کی . ماں تو ان کی ایسی ہی تھی . ہمہ وقت بوکھلائی ' سٹپٹائی سی . ابّا انھیں بلبلے کی مو مو کا چلتا پھرتا نمونہ کہتے تھے . چوبیس گھنٹے آ ن... آ ف کا بٹن جس میں ڈالا ہی نہیں گیا تھا .

" سنو ..." وہ سرگوشی بھرا لہجہ اپناتے ان دونوں کے قریب آئیں ' یہ جانتے ہویے بھی کہ سلیم میاں بائیک گھماتے اب تک کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہوں گے ' شاید دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں ' جیسے خطرے کو مد نظر رکھتے ہویے . ندا اور عافیہ کا کھانا کھاتے بیک وقت ہاتھ رکا .

" تمہارے باپ نے تم لوگوں سے ذکر کیا کوئی ' درخت ورخت بکنے کا ؟"

" ہائیں !" دونوں نے ایک دوسرے کو تعجب سے دیکھا ." کون سے درخت ' کاہے کے درخت ...؟"

" دیکھا ..." اندازے کی تائید پر رفعت نے میز پہ ہاتھ مارا ." مجھے پتا تھا ' یہ آدمی شروع دن سے ایسا ہی گھنا اور میسنا ہے . الله قسم ایسے تو کوئی دشمن کے ساتھ بھی نہ کرے ." تاسف سے سر ہلاتے ' وہ پھر سے چولہے ' توے کی طرف متوجہ ہوئیں. بات چیت کا سلسلہ البتہ موقوف نہیں ہوا تھا اور ایسی گفتگو میں ہمیشہ بولنے کا کام ووہی سر انجام دیا کرتی تھیں ' فالحال سامعین میں انھیں ندا اور عافیہ میسر تھیں . اکلوتے سپوت غالبا کالج کی تیاری میں مصروف تھے . انھیں بھی ایک سامع کی عدم موجودگی سے خاص سروکار نہ تھا . مقصد تو دل کی بھڑاس نکالنا تھا .