Pages 7
Views265
SIZE
2 / 7

پچپن سالہ بیٹے کے معمولات میں پچھلے پینتیس سالوں میں کوئی فرق نہیں آیا تھا . وہی صبح جاگنا ' ہاتھ منہ دھو کر ناشتہ کرنا اور فیکٹری جانا ' چھٹی کے دن ڈٹ کر آرام کرنا ' ٹی- وی دیکھنا ' نہانا دھونا اور ہر ماہ کی ابتدائی تاریخ پر تنخواہ لا کر بیوی کے ہاتھ میں تھما دینا .

ان جنتی خاتون کی بھی ایک لگی بندھی زندگی تھی ' ہر تیسرے سال ایک بچہ گود میں اور ایک پیٹ میں ' یوں شادی کے پچیس سال میں آٹھ بچے پیدا کر کے سرخرو ہوئیں . ان کے لئے گھر میں اتنے کام تھے محاوراتا نہیں حقیقتا سر کھجانے کا بھی وقت نہ ملتا تو بیٹے کو دیکھنے والی بلکہ تفصیلا دیکھنے والی آنکھ کہاں سے لاتیں .

بڑی دو بیٹیاں جو کاموں میں انکی مددگار تھیں ' شادی کے بعد سسرال والوں کی چاکری کر رہی تھیں ' یہ بیچاری گھر کے کاموں میں گھن چکر بنی یہ نوٹ ہی نہیں کر سکیں کہ گھر میں یہ نیا چکر کیا شروع ہو چکا ہے . سارا جائزہ اور نوٹس لیا تھا تو بس دادی نے .

بابر عرف بوبی دن میں آرام سے سو کر اٹھتا تقریبا بارہ بجے تک ' پھر وہ ہاتھ منہ دھو کر ناشتہ کر لیتا ' ایک عہدہ گھنٹہ ٹی- وی پر ڈٹ جاتا ' پھر تقریبا تین بجے اسکی تیاریاں شروع ہو جاتیں . روزانہ استری شدہ پینٹ شرٹ ( دو دفعہ اتوار بازار جا کر کئی پینٹین اور شرٹس لایا تھا )گھنٹہ بھر نہانا ' گھنٹہ بھر سر کے بالوں میں جیل اور جانے کیا الا بلا کریمیں لگا کر انھیں حمزہ علی عبّاسی کے سٹائل میں سیٹ کرنا ' منہ پر لگانے کے لئے مردانہ فیئر اینڈ لولی لایا تھا . وہ اپنی تیاری کرتا رہتا اور اماں اور بہنیں اس کے " فالودے " کے لوازمات تیار کر دیتیں .ٹھیلا سجاتا ' سپرے کی پھوار میں خود کو بھگوتا اور نکل پڑتا اپنے ٹھپے پر جاتا اور رات ایک ڈیڑھ بجے واپس آتا. سارا مال ختم کر کے اور نوٹ کما کے .