کرے' تمہیں نظر بھر کر دیکھے' خون کھولتا ہے میرا۔ تم صرف میری ہو' میرے لیے ہو دهیان میں رکھا کرو یہ بات۔" مائرہ بہت کچھ کہنا چاہتی تھی مگر
خاموش رہی' مائرہ منہ میں زبان رکھتی تھی اور بوقت ضرورت اپنی زبان کا استعمال کرنا بھی جانتی تھی۔ مگر یہ بھی سچ تھا کہ وہ سید اذلان شاہ سے محبت بھی بہت کرتی تھی اس لیے اذلان کی کڑوی کسیلی اور ناگوار باتیں بھی ہنس کرسہہ جاتی تھی۔ مائرہ کا گھر آ گیا تها اذلان نے گاڑی روکی۔
" آ جاؤ کھانا کھا کر چلے جانا۔" مائرہ نے کہا تو اذلان ہنس پڑا' وہ ایسا ہی تھا پل میں تولہ پل میں ماشہ اپنی منوانے والا' اپنی چلانے والا۔ اب اس کا غصہ اتر چکا تها اس لیے موڈ بھی ٹھیک ہوگیا تھا۔
" سچ میں آ جاؤں۔" اذلان نے مسکراتی ہوئی مائرہ کو نظروں کے حصار میں لے کر پوچھا۔ مائرہ فرنٹ ڈور کھول کر اتری اور ادھ کھلے پٹ پر ہاتھ رکھ کر اذلان کو دیکھنے لگی دیکھتی رہی۔
" ابھی نہیں پہلے میں مناسب وقت دیکھ کر اپنی امی سے تمہارا ذکر کروں گی اور پھر تمہیں اپنی امی سے ملواؤں گی اب جاؤ۔" دونوں ایک ساتھ ہنسے۔
" بائے۔" اذلان نے گاڑی دوبارہ اسٹارٹ کی۔
" باۓ۔" مائرہ نے جوابی ذرا سا ہاتھ بلند کر کے کہا اور گھر کے اندر چلی گئی۔
سید ارمغان شاہ کا ازلان شاہ اکلوتا بیٹا تھا اور تین بیٹیاں تھیں۔ ان کے ہاں لڑکیوں کو زیادہ پڑھنے کی اجازت نہیں تھی۔ خاندان کی چند ایک لڑکیاں ہی ایسی تھیں جو کالج تک پہنچی تھیں ورنہ تو میٹرک یا اس سے بھی کم تعلیم دلوانے کے بعد لڑکیوں کو گھروں میں محصور کر لیا جاتا۔
ہاں ان کے خاندان کے لڑکے ضرور کالج ' یونیورسٹیز میں پڑھ رہے تھے۔ زمیندار لوگ تھے۔ خوش حالی نسل در نسل آگے منتقل ہو رہی تھی۔ ہر لڑکے کو ایک شادی تو خاندان میں ہی کرنا ہوتی تھی کیونکہ اتنی لمبی چوڑی زمینیں خاندان سے باہر جانے کا خطرہ مول لینا پڑتا اگر خاندان کی لڑکیاں باہر بیاہی جاتیں تو۔ جو کہ شاہ خاندان کو گوارا نہیں تھا کہ بیٹیاں باہر بیاہنے کی صورت