SIZE
3 / 17

زلیخا چچی نے اپنے پورشن میں نئے پردے لگائے تھے اور ان کی دونوں صاحبزادیاں نمرہ اور ثانیہ اپنے چہروں پر نئے سرے سے محنت کر رہی تھیں گو کہ محنت کی ضرورت تو نہ تھی کہ ویسے ہی الله کا کرم تھا ان پر لیکن آج کل بیوٹی پارلر کے چکر زیادہ ہی لگ رہے تھے۔ نصرت تائی امی بھی اپنی اکلوتی کزن کو لیے اکثر کچن میں نئی نئی ڈشز سکھاتی نظر آتیں۔ رہ گئیں کنیز تائی امی (فرزانہ اور نازیہ کی امی) اور سلمی خلیل (یعنی میری والدہ ماجدہ) ان دونوں کو تو زمانے سے سرو کار ہی نہ تھا' ان دونوں والداؤوں کا خیال تھا کہ جب اوپر والے کو منظور ہوگا لڑکیوں کی شادی تب ہی ہوگی اور نازیہ اپنی امی کی بات سے سو فیصد متفق تھی گو کہ میں بھی اپنی امی کی اس بات سے سو فیصد متفق تھی مگر اسی فیصد میں تقدیر کے ساتھ تدبیر کو بھی لازمی سمجھتی تھی۔ میری امی کو خبر ہی نہ تھی کہ ان کی دیورانی جیٹھانی کس طرح اپنی بیٹیوں کے راستے آسان کرنے کے گُر آزما رہی تھیں۔

" امی! گھر پر رنگ کروا لیتے ہیں کیا خیال ہے۔" میں نے امی کو مشورہ دیا۔

" کیوں بھئی ' رنگ صحیح تو ہے گھر کا' پچھلے سال تو کروایا ہے۔" امی کو اچھنبا ہوا۔

" اوہو امی! گھر گندا لگ رہا ہے۔"

" اچھی طرح صاف کرو گی تو صاف ہو جاۓ گا،" امی کی طرف سے مسئلے کا حل پیش ہوا،

" اف " میں تو جل ہی گئی امی کی سادگی پر" انہیں تو میری پرواہ ہی نہیں۔"

پھر بھی دو چکر تو بیوٹی پارلر کے میں نے بھی لگا ہی لیے۔ نمرہ' ثانیہ اور کرن کی ٹکر پر تو خیر میں نہیں آ سکتی تھی' پھر بھی میرے دل کو تسلی ہوہی گئی۔

" تم کس خوشی میں اپنے چہرے پر اتنے پیسے ضائع کر رہی ہر۔" ناذیہ سے تومیں کچھ نہیں چھپا سکتی تھی اس لیے اسے فیشل کا بتا دیا تھا۔

" کیوں جب سب کروا سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں۔" ناذیہ کا اعتراض مجھے پسند نہ آیا۔