SIZE
1 / 6

برکھا رت آج جم کر برسنے کا تہیہ کیے بیٹھی تھی' روٹھا ساون آج ناراضگی بھلائے مینہ برسانے پر آمادہ تھا۔ کالی گھنگور گھٹائیں نیلے آسمان پر بانہوں میں بانہیں ڈالے محو رقص تھیں اور ان کے مخمور ہو کرجھومنے سے ساون برستا تھا اور کیا خوب جم کر برستا تھا۔

اور یہ برستی ساون رت دل لبھائے دیتی ہے ' بے قرار کیے دیتی یوں کے ایک پُرسرور' پُر کیف سی کیفیت کا ادراک ہوتا جن دلوں میں محبت کے بیج کھل کر لالہ زار ہو چکے تھے' رم جھم برستی بارش ان کے محبت کے گلشن میں آبیاری کیے د ے رہی تھی۔ اور کچھ دل ایسے بھی تھے جن کے زخموں کو اس ساون نے ادھیڑ کر رکھ دیا تھا ' رم جھم برستی پھوار ان کے زخموں پر شعلوں کے مانند دہک رہی تھی۔ دل اداس بن کر روپ دھارے ہوا تھا جہاں کوکتی کوئل اداسی سے جدائی کے نغمے گا رہی تھی۔

" مجھے یقین نہیں آرہا کہ وہ واپس آ چکا ہے تمہارے پاس۔" نیلے لباس میں ملبوس لڑکی تربوزی رنگ کی گھیر دار فراک میں ملبوس لڑکی سے بنا دیکھے مخاطب ہوئی۔ اس کے لہجے میں جوش جھلک رہا تھا اور نگاہیں سامنے گلاس وال کے اس پار سے جھانکتے لان پر مرکوز تھیں جہاں برستی بارش کی موٹی موٹی بوندیں بے تابی سے گیلی مٹی سے ملنے کو بے چین تھیں۔ اس کی مخاطب لڑکی جوابا خاموشی اختیار کیے رہی ۔ اس کی نگاہیں بھی گلاس وال سے باہر جمی ہوئی تھیں۔ -

" اس نے تم سے دوری اختیار کرنے کی کیا وجہ بتائی ؟ " وہ اب گردن موڑ کر رخ اس کی جانب کیے بغیر اسے دیکھتی سوال کررہی تھی مگر وہ لڑکی پھر بھی خاموش رہی۔ لکڑی کا وه بے انتہا خوبصورت جھولا جس پر وہ دونوں براجمان تھیں' سوال کرنے والی لڑکی کی ذرا سی جنبش سے ہلکے ہلکے ہلکورے لینے لگا۔

" تمہاری یہ خاموشی مجھے مزید بے چین کر رہی ہے' مجھے بتاؤ عروسہ شہروز حسن نے تم سے کیا کہا؟" اس کی مسلسل خاموشی سے جھنجلا کر اس نیلے لباس والی لڑکی کی آواز بلند ہوئی تھی ۔ اس بار مخاطب کیے جانے والی لڑکی نے ذرا سا رخ پھیر کر اس کی جانب دیکھا' اس کی آنکھوں میں بلا کا اسرار چھپا تھا' ہلکے گلابی ڈورے اس اسرار کی پراسراریت میں مزید اضافہ کررہے تھے۔

" وہ تمہیں یوں اچانک کیوں چھوڑ کر گیا تھا' کیا وجہ تھی اور اب واپس آیا تو اس کے کیا ارادے ہیں؟ تم خاموش کیوں ہوعروسہ کچھ بتاتی کیوں نہیں۔" گلابی ڈورے اس کے دل کو تڑپا گئے' تبھی اس کے لہجے میں شدت اور سوالوں

میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ عروسہ نے نظریں جھکا لیں اب اس کی نظروں کا مرکز اس کی ہتھیلیاں تھیں ' نرم گلابی' لکیروں میں الجھی بھیگی بھیگی ہتھیلیاں۔

" تم مجھ سے اپنے دل کی باتیں کیوں چھپا رہی ہو' کہہ کیوں نہیں دیتیں سب کچھ ۔ تمہیں اب اپنی سہیلی پر اعتبار نہیں رہا۔" وہ کب سے اس سے سوال کرتی اب نڈھال لہجے میں پوچھ رہی تھی۔

" میرے پاس تمہیں سنانے کے لئے کوئی امیر حمزہ کی داستان نہیں مائرہ' بس اتنا جان لو' جانے والے اگر لوٹ بھی آئیں تو لازمی نہیں کہ ان کا لوٹنا خوشیوں کا باعث بھی ہو۔"

قفل ٹوٹا اور ان گلابی ہونٹوں سے لفظ ٹھہر ٹھہر کر ادا ہوۓ جو اسے شدید حیرانگی میں مبتلا کر گئے۔

" تم آخر مجھے بتا کیوں نہیں دیتیں کہ ماجرا کیا ہے' کیا کہا ہے شہروز حسن نے' اگر اس کا آنا خوشیوں کا باعث نہیں تو پھر کیوں لوٹا ہے وہ؟" وہ شدت جذبات کے عالم میں چیخ اٹھی اور اس کی شدت سے متاثر ہو کر لکڑی کا جھولا بھی جھول اٹھا۔

" کیا کروگی جان کر' میں کہہ تو رہی ہوں اس پر مزید بحث کرنا عبس ہے ' لاحاصل بحث۔" عروسہ اس کے جذبات سے متاثر ہوئے بغیر ایک بار پھر اپنی نگاہیں لان پر مرکوز کر چکی تھی۔

" قسم سے اگر تم میری سب سے عزیز سہیلی نہ ہوتیں اورمیں تمہاری رگ رگ سے واقف نہ ہوتی تو تمہاری ان فلسفیانہ باتوں پر دو حروف بھیج کر چلتی بنی مگر میں جانتی ہوں تم اس وقت دل گرفته اور اداس ہو' اسی لیے میں جاننا