SIZE
4 / 10

" گزرے وقت کا حساب کتاب کر کے مجھ پر یقین کر لو۔"

" لیکن میں تو آنے والے وقت کا حساب کتاب کرتی ہوں۔" اور وہ پھر دل کھول کرہنسا۔

ان کی ایسی تکراریں ہزاروں بار ہوتی تھیں۔ ان کی پہلی ملاقات سے محبت کے پہلی بار اظہار سے 'اس کے ساتھ زندگی شروع کرنے کے پہلے دن سے۔۔۔۔۔۔

" اجالا پاگل ہے۔" اکثر تکرار کے اختتام پر وہ اس کے کان کے پاس آ کر چلا کر کہتا۔

" واصف پاگل تھا۔ " وہ بھی اسی انداز میں کہتی۔

" میری آنکھوں میں دیکھو ! کیا یہ کسی پاگل کی آنکھیں ہیں؟ کیا پاگل ایسے ہوتے ہیں؟ یہ تو رانجھے کی سی آنکھیں ہیں۔"

" رانجھا بھی محبت سے سیر نہیں ہوا تھا۔ ان آنکھوں میں اور ۔۔۔۔اور ہوا ہو گا کیا پتا۔۔۔۔۔"

" رانجھے پر بھی شک ! پھر بھی اس کی زندگی میں صرف ہیر ہی تھی کیونکہ شاید اسے اور۔۔۔۔۔ اور محبت صرف ہیر سے چاہیے تھی۔۔۔"

" مطلب؟"

" چھوڑو مطلب۔" اس نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے گول گول گھمانے لگا ساتھ وہ گنگا بھی رہا تھا۔

ایک روز وہ رات گئے ایسے کسی کزن کے ساتھ گھر واپس آیا۔ اس کے بار بار فون پر وہ صرف اتنا ہی کہتا رہا کہ وہ بس گھر آ ہی رہا ہے اور وہ "بس" پانچ گھنٹے بعد آیا ۔ اس کے روتین بار اس کے مزید فون کرنے پر وہ مزید غصے میں آ گیا۔

" آ رہا ہوں نا یا ر! کہا تو ہے۔ اس کے انداز نے اجالا کا خون جلا دیا۔

" پانچ گھنٹوں میں تمہیں پانچ منٹ نہیں ملے کہ تم اطمینان سے مجھے فون کرکے بتا دو کہ تم کہاں ہو۔ کیا کر رہے ہو۔ کب تک آجاو گے۔ " اس کا کزن فيصل جا چکا تھا اور اب وہ عین اس کے سامنے بیٹھا تھا۔

" اگر میں فون نہیں بھی کرتی تو تمہیں چاہیے تھا کہ تم کرو اور مجھے بتاؤ ایک لاکھ دفعہ میں نے فون چیک کیا' ہاتھ میں فون لیے لیے میرا جسم شل ہو گیا اور تم اپنے کزن کو شاپنگ کرواتے رہے' تم گاڑی میں بیٹھ کر

کسی دکان کے کونے میں کھڑے ہو کر مجھے اطمینان سے ساری بات نہیں بتا سکتے تھے۔ بیوی پرانی ہو گئی ہے' اس نے کھانا کھایا ہے کہ نہیں' وہ سوسکے گی یا نہیں تمہیں پرواہ نہیں۔"

" فیصل کے پاس وقت کم تھا اسے واپس دوسرے شہر جاتا تھا۔ یقین کرو اتنی بری طرح سے ہم الجھ گئے خریداری میں کہ اس سب کا خیال ہی نہیں رہا۔"

" مجھے یہ مت بتاؤ کہ تم کتنے مصروف تھے۔ مجھے یہ بتاؤ کہ اس مصروفیت میں سے کچھ وقت نکالنا کیا مشکل تھا؟"

"ہاں مشکل تھا۔ " اس نے صاف کہا۔ اس بات سے اجالا کا غصہ اور بڑھ گیا۔ بیوی سے بات کے لیے وقت نہیں۔۔۔۔ واه ۔۔۔۔۔ " وه سوں سوں کر کے رونے لگی۔

" یہی تو بات ہے یا ر! تمہیں ایک بات یونہی کہہ دو تم اسے سچ جان لیتی ہو۔" اس کے روتے ہی اس نے بچوں کی طرح اس کے گرد اپنے بازو حمائل کیے۔ " اکثر باتوں کے وہ مطلب نہیں ہوتے جو نکالے جاتے

ہیں۔"

" میں وہی مطلب نکالتی ہوں جو تمہاری باتوں میں ہوتا ہے۔ رات کے ایک بجے تم گھر واپس آرہے ہو اور تم چاہتے ہو کہ میں تم سے کچھ پوچھوں بھی نہیں۔ " خود کو اس کے حلق سے آزاد کروا کروہ بیڈ روم کی طرف جائے گی۔