SIZE
2 / 11

دونوں بہوؤیں ان کا ہر حکم مانتیں آپس میں کوئی رنجشیں یا چپقلش نہ ہوتی۔ بچے بڑے سب مل جل کر پیار سے رہتے۔ گھر کے فیصلے سلطانہ بیگم ہی کرتیں ۔ کبھی کبھی شفیقہ بیگم بھی آ جاتیں تو مہینہ بھر رکتیں گھر میں رونق بڑھ جاتی۔ بچے بھی پھپھو کے آنے پر بہت خوش ہو جاتے۔ بچوں کی چھٹیوں کو چار چاند لگ جاتے سب مل کر خوب انجواۓ کرتے۔ لڑائی ہوتی بھی تو فورا صلح ہو جاتی۔ ایک دفعہ ایسے ہی شفیقہ بیگم آئیں تھیں۔ شام کے وقت سب لوگ بڑے سے صحن میں بیٹھے تھے۔ صبوحی چاۓ بنا لائی تھی۔ سب چاۓ سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ وہیں تھوڑے فاصلے پر مختلف کھیل کھیلنے میں مصروف تھے ایک دوسرے سے تکرار بھی ہو رہی تھی اور ایک دوسرے کی طرف داریاں بھی ہو رہی تھیں۔

" بھابی اور لقمان بھائی میری ایک خواہش ہے۔" شفیقہ بیگم نے چاۓ کا گھونٹ لے کر بڑے بھائی بھاوج کو مخاطب کیا۔

" کیا بات ہے آپا بولیں؟" عطیہ بیگم نے بسکٹ کی پلیٹ ساس کی طرف بڑھاتے ہوۓ کہا۔

" میں چاہتی ہوں کہ باسق کی دلہن عشبہ کو بناؤں اور بسیم کی حفصہ کو یہ میری خواہش ہے کیوں اعجاز ' صبوحی اور اماں آپ لوگ کیا کہتے ہیں؟" شفیقہ نے بات مکمل کر کے سب کو باری باری دیکھا۔

" یہ تو بہت اچھی بات ہےآپا کہ گھر کے رشتے گھر میں ظے ہو جائیں۔ اس طرح رشتوں میں مزید پائیداری پیدا ہو گی۔ ہمارے بچے ہیں سارے۔"

" کیوں اماں؟" عطیہ بیگم نے خوش دلی سے کہا۔

" بہت اچھا فیصلہ ہے۔ ایسا سوچ کر تم نے عقل مندی کا ثبوت دیا ہے۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں بلکہ ہم بھی عبرہ کو اپنے اسجد کے لیے مانگتے ہیں مگر۔۔۔۔ میرے خیال میں ایسی باتیں صرف گھر کی حد تک ہوں تو بہتر ہو گا۔ " اماں نے دانش مندانہ انداز میں کہا۔

" مطلب بات تو طے ہے؟" شفیقہ بیگم نے خوش ہو کر کہا۔

" مبارک۔۔۔۔ مبارک۔۔۔۔" سب لوگ ایک دوسرے کو مبارک دینے لگے ۔ اعجاز احمد اور لقمان احمد نے آگے بڑھ کر بہن کو گلے لگایا۔ صبوحی دوڑ کرفریج سے چاکلیٹ لے آئیں سب لوگ مسکرا دیے۔ اس بار واپس لوٹتے وقت شفیقہ بیگم بہت خوش تھیں۔

" اس بار میں بہت اچھی یادیں لے کر جا رہی ہوں بھابی' صبوحی۔" انہوں نے بھاوجوں سے گلے لگ کر کہا۔

" پھوپھو اب کب آئیں گی دوبارہ۔" عشبہ روہانسی تھی۔ اس کو باسق کے ساتھ کھیلنا بہت اچھا لگتا تھا۔ وہ بھی عشبہ کا بہت خیال رکھتا تھا۔ سب بچوں کے منہ بھی اترے ہوۓ تھے قدرتی طور پر سارے بچے ایک دوسرے سے کلوز تھے۔ شفیقہ بیگم خوشگوار یادیں لیے اپنے شہر کو لوٹ گئیں۔ وقت گزرتا رہا انصار صاحب کی اچھی جاب تھی اور پھر ان کو جاب کی طرف سے آسٹریلیا جانے کا چانس بھی بن گیا۔ ایک ملک میں رہتے ہوۓ شفیقہ بیگم اپنے بھائیوں' ماں اور بھاوجوں سے ملنے سال بعد ہی جاتی تھیں۔ اب اتنی دور جانے کا سنا تو سب لوگ مضمحل ہو گئے۔ سب سے زیادہ بچے اداس تھے۔ عشبہ جو باسق سے زیادہ ہی قریب تھی بہت اداس تھی۔ وہ اتنی دور جا رہا تھا۔

" میں تمہارے لیے بہت سارے گفٹ لاؤں گاعشبہ۔" باسق نے عشبہ کواداس دیکھ کر اس کے ہاتھ تھام کر افسردگی سے کہا۔

" مگر باسق گفٹ تو یہاں رہ کر بھی دے سکتے ہو ناں؟" وہ معصومیت سے بولی۔ وہ معصومیت سے بولی۔