SIZE
2 / 6

سوکھ کر کانٹا ہو جاتے ہیںاور ڈاکٹر کے پاس پہنچنے والا ہر مریض جیسے جاتا ہے تو ڈاکٹر کو ہی پیارا ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔ آپ بار بار گھڑی دیکھتے ہیں اور پھر اللہ اللہ کر کے جب آپ ڈاکٹر تک پہنچتے ہیں تو وہ صرف چند سیکنڈ میں دو چار سطریں کاغز پر کھینچ کر آپ کو چلتا کر دیتا ہے۔۔۔۔ میرے ساتھ تو ہمیشہ ایسا ہی کچھ ہوا۔

" نہیں جی۔۔۔۔ میں تو اتنی جلدی نہیں جاتی۔۔۔۔ کچھ میرے انتظار میں تھی کہ وہ چند سطریں کاغذ پر کھینچ کر میرے حوالے کر دے گا' مگر اس بار اس نے مجھے اسٹیتھو اسکوپ سے پہلے تو خوب جانچا۔۔۔۔ نبض کو پرکھنے میں بھی کافی سارا وقت لیا اور تھرمامیٹر بھی ہاتھ پر بندھی گھڑی دیکھ کر پورا وقت دے کر منہ سے نکالا اور پھر میرے شب و روز کے بارے میں پوچھنے کے بجاۓ یہ سوال پوچھ بیٹھا اور اس پہ ستم یہ کہ مسکرا بھی رہا تھا' میں گڑبڑا گئی۔ پہلو بدلنے لگی۔ وہ میری گومگو حالت دیکھ کر پھر گویا ہوا۔

" پچھلے ہفتے جو اینٹی بایوٹک لکھ کر دی تھی' تم نے لی ہوتی تو ابھی تمہاری حالت بہتر ہوتی۔ تمہیں بتایا بھی ہے کہ سردی میں اس بیماری کو بہت احتیاط سے لے کر چلنا ہوتا ہے۔ کھانسی وہ بھی اکیوٹ جو وقت کے ساتھ بڑھے گا۔ تمہاری حالت بہتر ہونے کی بجاۓ بگڑ رہی ہے۔ اب تم ہی بتا دو' کیا چاہ رہی ہو؟"

اس کے سیدھے ہاتھوں کی انگلیوں کے درمیان بال پوائنٹ مسلسل گھوم رہا تھا جو کہ اس کے بے چین ہونے کی نشاندہی کر رہا تھا۔ میں آج خود کو اس کی توجہ کا مرکز پا کر کچھ کہہ ہی نہیں پا رہی تھی۔ چپ سی لگ گئی تھی۔ پھر کہتی بھی تو کیا۔۔۔ اقرار جرم ایسا آسان بھی نہیں ہوتا۔

" میں نے کافی احتیاط رکھیاور جو دوائی کلینک سے ملی وہ بھی وقت پر لی تھی ' مگر بس اینٹی بایو ٹکس نہیں لے پائی۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔ میں کوشش کر کے جلد منگوا لوں گی۔"

میں نے باقاعدہ مرعوبیت سے جواب دیا ہی تھا کہ وہ تیز لہجے میں مجھے پھٹکارنے لگا۔

" ہم م م۔۔۔۔ محترمہ کس کو بیوقوف بنا رہی ہو؟ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ دوائی نہیں لو گی تواپنا نقصان کرو گی۔ ابھی گھر پر ہو' کل اسپتال پہنچ جاؤ گی اور پھر جو خرچہ ہو گا اس پر گھر والوں سے صلواتیں بھی تم ہی سنو گی۔ تکلیف کی تو خیر ہے۔۔۔۔ عادت ہی ہے۔۔۔۔ کیوں؟"

میں نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔ ہم کب سے اپنی ذات کو بڑے خلوص ' مان اور وقار کے ساتھ نظر انداز کرتے چلے جاتے ہیں اور پھر کبھی کبھارکسی کے احساس دلاۓ جانے پر شرمندگی سے ڈوب مرنے کو سوچنے لگتے ہیں۔ اب سمجھ میں آیا کہ مریض ڈاکٹر کو پیارے نہیں ہوتے بلکہ اس کی پھٹکار سننے کے لیے اتنا وقت لیتے ہیں۔

" میں اب دوسری اینٹی بایوٹک لکھ کر دے رہا ہوں۔ چار گھنٹے کے وقفے سے لیںاور ایک ہفتے بعد آ کر دکھائیں۔ اگر بیچ میں طبعیت زیادہ خراب ہو توکلینک میں آ کر اتنا لمبا انتظار کرنے کے بجاۓ مجھ سے فون پر رابطہ کیجیے گا۔ دن میں کسی بھی وقت فون کر سکتی ہیں۔"

اس نے ناراضی اور غصے کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ بہت ہی پیشہ وارانہ انداز سے مجھے ہدایات دیتے ہوۓ میرے ہاتھ میں پرچا پکڑا دیا۔ میں جان چھوٹنے پر جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی ' مگر بخار کی شدت اور کمزوری سے چکرا گئی۔ وہ پھرتی سے اٹھ کھڑی ہوا اور مجھے سنبھالتا ہوا پھر سے ڈانٹنے لگا۔

" اتنی خراب طبعیت میں بھی آپ اکیلی ہی آئی ہیں' مانا کہ محلے میں کلینک ہے ' مگر آپ کسی کو تو ساتھ لایا کریں' آپ سے زیادہ آپ کے گھر والوں پر حیرت ہوتی ہے کہ اس حالت میں آپ کو اکیلے آنے ہی کیسے دیتے ہیں۔"