SIZE
2 / 10

ماہرہ کو خیال آیا۔ وہ کتںی خوب صورت دیکھائی دیتی تھی ۔ نیلا رنگ اس پر اس قدر اٹھ رہا تھا۔ گزرا سال اس کا کچھ نہیں بگاڑ پایا تھا۔ وہ ویسی ہی شگفتہ اور دلکش تھی۔

پھر وہ جلدی سے اٹھی اور ڈریسنگ ٹیبل کے قد آدم آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ براؤن رنگ کے کپڑوں میں اس کا بے رونق چہرا مزید بے رونق لگتا تھا۔ اسے بے حد مایوسی ہوئی۔ حد درجہ جھنجلاہٹ سوار ہوئی۔ اسے خود پر غصہ آیا۔آخر اسے رنگوں کا صحیح انتخاب کرنا کیوں نہ آیا تھا۔ ہر مرتبہ کپڑوں کی شاپنگ کے وقت وہ یہ بات بھول جاتی تھی کہ اسے کس طرح کے رنگ پہننا چاہیں۔

ڈل براؤن' ڈارک میرون' ڈارک گرین' بلیک' مرے ہوۓ چوہے کا سا گرے۔۔۔۔۔ اسے اپنی الماری کھول کر بے حد افسوس ہوا۔ ایک سے ایک بیکار رنگ بھرا ہوا تھا۔

اس کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ وسیم کے آفس سے لوٹنے سے پہلے نہا دھو کر کوئی بہت فریش' کھلتا ہوا سا رنگ پہنے۔ ایسا رنگ جس کا عکس اس کے چہرے کی بے رونقی کو ڈھانپ لے جو اس کے اندر کی اچھائی کو پورے طور پر نمایاں کر دے جو اسے پورے گھر میں چلتے پھرت اس طرح فوکس کر دے کہ وسیم کو کھڑکی کھول کر باہر جھانکنے کا خیال نہ آۓ۔ اگر وہ کھڑکی کھول دیتا اور سامنے والی کھڑکی میں کھڑی شمائلہ کو نیلے رنگ کا لباس پہنے ہوۓ دیکھ لیتا تو ۔۔۔۔۔ تو۔۔۔۔۔ آگے اس کی سوچ کی پرواز میں دم نہ رہا۔ وہ بے جان پروں کے بوجھ کے ساتھ ماہرہ کے کاندھوں پر آ گری۔

پھر اس کا جی چاہا وہ سر پر پٹی باندھ کر بستر پر پڑ جاۓ۔ اور اس قدر ہاۓ واۓ کرے کہ وسیم اس کے سرہانے سے ہی نہ اٹھے۔ اس کا ذہن ماہرہ کی بیماری میں اس قدر الجھ جاۓ کہ اسے کھڑکی کا خیال تک نہ آ سکے۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔ وسیم تو زرا سی طبعیت خرابی میں ساب سے پہلے تازہ ہوا کی فراہمی کے لیے پہلا کام کھڑکی کھولنے کا کرتا تھا اور پھر وہ اس کی بیماری اور صحت سے متعلق ہر بات فراموش کر دیتا۔ شمائلہ کو دیکھ کر ! پھر اسے خیال آیا ' کیوں نہ وہ اس کھڑ کی کے پٹوں میں کیلیں ٹھونک دے ۔ اسے کوئی تختہ لگا کر ہمیشہ کے لیے بند کر دے ۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ تو سب سے زیادہ نا قابل عمل تھا! بھلا وہ اپنے اس عمل کی وسیم کے سامنے کیا توجیہ پیش کر سکتی تھی؟

سب سے آخر میں اسے اپنی ماسٹرز کی ڈگری یاد آئی ! ماہرہ کا جی چاہا کہ وہ اپنی ڈگری نکال کر دیکھے ۔ آخر کیوں؟ کیوں اس نے وہ ڈگری حاصل کی تھی ؟ فرسٹ کلاس ' فرسٹ پوزیشن ۔۔۔۔ ماہرہ شیخ۔ ایک قبول صورت ' سانولی رنگت کی لڑکی۔۔۔ جو ازدواجی زندگی کے دو سال گزرنے کے بعد بھی اپنے شوہر کی اجنبیت سے خوفزدہ تھی۔ اپنے شوہر کے گھر میں ہوتے ہوۓ وہ وہ ایک ایسی لڑکی سے خوفزدہ تھی جو محض دور سے اس گھر کی صرف ایک کھڑکی کے کھلنے کی منتظر رہتی تھی۔ موجودہ وقت پر دسترس رکھتے ہوۓ وہ آنے والے وقت کے بے معنی اندیشوں سے خوفزدہ تھی۔۔۔۔۔۔ کیوں۔۔۔۔۔۔ کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔؟

وہ ایک مرتبہ پھر آئینے کے مقابل چلی آئی اور وہ اپنی مایوس اور خوفزدہ نظروں سے اپنا چہرا کھوجنے لگی۔ اسے احساس ہوا' وہ زیادتی کر رہی تھی' وہ اپنے چہرے کے ساتھ زیادتی کر رہی تھی۔