SIZE
3 / 8

" کوئی ٹینشن نہیں ہے مجھے۔ ویسے ہی ہوا ہو گا۔ امی ائیں گی کل تمہاری طرف۔۔۔۔" اس نے بات پلٹ دی تھی۔

" پھپھو ائیں گی گڈ!" وہ مسکرائی تھی۔

" انہیں بتاؤں گی' میں نے ان دو ماہ میں کیا کیا پڑھا۔ وہی تو ہیں جو میری ساری باتیں پوری توجہ سے سنتی ہیں۔" طنزیہ لہجہ ہو گیا تھا۔

" کتابوں کی دیوانی لڑکی۔ تم مجھ سے بھی شئیر کر سکتی ہو کہ تم نے کیا کیا پڑھا۔"

اس کا دل اس سے لمبی بات کرنے کو چاہ رہا تھا۔ ارم نے سوچا اور سوچ سمجھ کے کہنے لگی۔

" ایک سائیکاٹرسٹ سے پوچھا گیا' اگر اپ کو پتا چلے کہ ایک انسان جو ایک لمحے نارمل لگے' اگلے لمحے اتنا ڈپریسڈ ہوۓ کے خود کشی کرنے کی کوشش کرے اپ اسے کیا مشورہ دیں گے؟"

سائیکاٹرسٹ نے کہا۔ " میں اسے کہوں گا کہ کے وہ کسی ضرورت مند انسان کو ڈھونڈے اور اس کی مدد کرے۔ روح کو ہم جو کچھ دیتے ہیں ' وہ جسم کو لوٹا دیتی ہے۔ روح کو غذا فراہم کرنا جسمانی صحت کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے۔"

" اچھا! سائیکالوجسٹ صاحبہ باقی سیشن بعد میں ۔ اس وقت دل چاہ رہا ہے کہ دل کی بات کی جاۓ۔"

" واۓ ناٹ!" ارم مسکرائی تھی اور موبائل جا کےماں کو پکڑا دیا۔ " جتنی مرضی باتیں کرو۔"

سورج کا چہرہ ضبط کی ڈھیروں سرخی سمیٹ لایا تھا۔ شام کو کوئی حق نہیں تھا کہ وہ اس کی راجدھانی پر قبضہ کرتی۔

ایسے میں نائلہ برامدے میں چارپائی پر بیٹھی کسی جوڑ توڑ میں مصروف دروازے کی طرف متوجہ ہوئی۔ جہاں سے مولوی صاحب کی بیوی تشریف لا رہی تھیں۔

وہ چارپائی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ مذہبی لوگوں سے ہم سب کہیں نہ کہیں ضرور متاثر ہوتے ہیں وہ بھی تھی۔

" میں نے سنا ہے کہ کل وہ لوگ ارم کی شادی کی تاریخ طے کرنے آ رہے ہیں۔"

چھوٹا سا گاؤں تھا اور کمر سے کمر ٹکاۓ مکانات' زور سے سانس لینے کی آواز ساتھ والے گھر میں سنائی دیتی تھی ۔ یہ تو پھر بڑی بات تھی۔

" جی! کل ارم کی پھپھو آ رہی ہیں ۔" انہوں نے کہا اور پھر کسی سوچ میں ڈوب گئیں۔

سوچیں بھی ضدی بچے کی طرح ہوتی ہیں۔ سلانا چاہتے ہیں تو اور زیادہ جاگتی ہیں۔

وہ خود اس رشتے سے خوش نہ تھیں۔ وہ ارم کا رشتہ اپنے بھائی کے گھر کرنا چاہتی تھیں۔ ایک ہی تو بھائی تھا ئن کا اور وہ بھی اتنا امیر ادھر معطر دو سال بعد گھر کا ایک چکر لگاتا تھا اور آمدنی پھر بھی زیادہ نہ تھی۔

" استخارہ کیا؟" نائلہ چونکیں۔

" اتنے سال ھو گۓ لڑکا بیرون ملک ہے۔ پتا نہیں کیا کیا گل کھلاۓ ہوں گے ۔ استخارہ کر لیتیں تو اچھا ہو جاتا۔ اس طرح کے کاموں میں اللہ سے مشورہ کر لینا چاہیے۔ نجانے کب پاؤں کے نیچے زمین کی بجاۓ کھائی آ جاۓ اور انسان دھڑام سے اس میں جا گرے۔"