SIZE
2 / 6

اور باقی بچوں کو ساتھ ہی لے جاتی تھیں اور شام کو واپس آتیں تو اسے غصہ بھی بہت اتا تھا' اس لیے وہ سارے کام خود ہی کرتی تھی۔ اب گاؤں کے اسکول سے نکل کر وہ سرکار کے کالج میں پہنچ گئی تھی۔

سادہ سی وردی' سیدھی مانگ اور ناکافی دستے قلم' مگر وہ محنت کرتی تھی اور اگے نکل جاتی تھی۔ نہیں نکلی تو اس گھر سے غربت نہیں نکلی۔ باقی سب بہن بھائیوں کے قد بہت نکل آۓ تھے۔

ابو کے بھائی' فضل حیات سرکاری ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے اور خوب پیسے والے تھے ۔ کبھی کبھی آ بھی جاتے تھے اور تھوڑی بہت مدد بھی کر دیتے تھے مگر کسی کی امداد سے بھلا کبھی پیٹ بھرتے ہیں۔ پیٹ تو تب بھرتے ہیں جب بھرنے والی جھولیاں بھرے صندوق ' بکسے سب ۔امی کے بھائی کا بیٹا ' امی کا اکلوتا بھتیجا جو ہنستا بہت تھا اور یہ ہنسی مزاق اڑاتی ہوئی محسوس ہوتی تھی' اس کی انکھیں فریب سے پر تھیں۔ اسے یوں لگتا تھا جیسے وہ صرف یہاں ان کا مزاق اڑانے اتے ہوں محظوظ ہونے کے لیے اتے ہوں۔

وہ ہر دفعہ اپنی بہنوں کے مہنگے بستے اور کپڑے انہیں دکھاتے تھے اور پھر انکھوں میں جھانک کر کہتے " تم بھی لوگی؟" وہ مزے سے پوچھتے۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں ' وہ بھی مہروز بھائی کو کہہ دیتی کہ ہاں اسے بھی چاہیے مگر پھر جب وہ لوٹتا تو وہ بس خالی خالی نظروں سے دیکھتی رہتی اور وہ پھر سے میدان سجا کر بیٹھ جاتے۔

" گھڑی لو گی۔ بستہ لو گی۔ یہ کتاب 'وہ تمہارے پاس نہیں' وہ لا دوں۔" اور وہ کبھی بھی نہیں لاتے تھے۔

امی کو بھتیجے سے پیار تھا ۔ اس کی لچھے دار باتیں پسند تھیں۔ ستایئیس اٹھائیس سال کے مہروز بھائی انتہائی شاطر آدمی تھے ' ان کی بہنیں انتہائی کند ذہن تھیں ۔ کوئی پوزیشن تو کیا پاس بھی مشکل سے ہوتیں مگر یہ اور بات تھی کہ سہولتیں بھی انھی کے پاس تھیں ۔ اہستہ اہستہ وہ اپنے بچپن کی دہلیز پار کر گئی مگر مہروز بھائی کی ' کی ہوئی تذلیل بھول نہ سکی۔ اس نے اب اپنے کپڑے کے بستے کو اور مضبوطی سے تھام لیا تھا اور مہروز بھائی کو سختی سے انکار کرنا شروع کر دیا۔ جواب میں وہ اور ہنستے جاتے اور باتیں کیے جاتے ' جیسے کچھ برا سننا چاہتے ہوں ' کچھ غلط کروانا چاہتے ہوں ' ان کی باتیں اکساتی ہوئی تھیں جسے وہ کہے کہ وہ غریب ہے اسے غریب ' کمزور ہونا اچھا نہیں لگتا ' اسے اپنی ماں کا دوسرے کے کھیتوں میں کام کرنا اچھا نہیں لگتا ' مگر اب وہ بچی نہیں رہی تھی۔ وہ سب سمجھنے لگی تھی ان کی شاطر مسکراہٹ کو سنجیدگی سے لینے لگی تھی۔ وہ بس غور سے انہیں دیکھتی رہتی تھی۔

اس سوال کا جواب بھی اسے جلد ہی مل گیا تھا۔ مہروز بھائی ان کے گھر اۓ تھے اور ان کے ساتھ صاف ستھرے لباس والے ندیم بھائی بھی تھے جو فضل چاچو کے بیٹے تھےاور یہ اس کے منگیتر بھی تھے ۔ اس نے بچپن سے مہروز بھائی کو اپنا مذاق اڑاتے ہوۓ دیکھا تھا بلکہ وہ سب گھر والوں کی برائیاں ' ہنسی ہنسی میں کرتے تھے۔ ہمدردی میں ان کی تنگ دستی کا کچھ ایسے مزاحیہ انداز میں نقشہ کھینچتے کہ وہ کلس کر رہ جاتی مگر ندیم بھائی کے ساتھ ان کی یاری دوستی بڑی پکی لگتی تھی۔