SIZE
1 / 2

شبراتی۔

بازار،پھو لوں اور چا دروں کا بازار،عقید توں کا بازار۔یہاں عقیدت کے آگے پیسہ اور مر تبے کو جھکتے دیکھا میں نے۔یہ عجیب با زار تھا جہاں سب خریدو فروخت کسی ایسے شخص سے منصوب تھی جو موجود ہی نہیں ہے۔بارہ فٹ لمبی سڑک جو کہ آگے جا کے روکاوٹوں سے بند کی گئی تھی۔اس کے دونوں کنارے زمین پہ بیٹھے لوگوں اورمختلف اشیاء کے ٹھیلے والوں سے بھری ہوئی تھی۔پھول اور چادر اس بازار کا بھی خاصہ تھے جیسے ہر مزار کے ساتھ جڑے ایک چھو ٹے سے بازار کا خاصہ ہو تا ہے۔یہاں کتنے انجان چہرے آتے ہیں اور ہر شخص ایک نئی کہانی کے ساتھ آیا ہے۔یہاں بہت سارے پھول عقیدت پہ قربان ہوجاتے ہیں۔۔اس سڑک پہ لوگوں کے گھروں کے ساتھ ایک مزار واقع ہے۔جو عام دنوں کی نسبت ہرجمعرات کو بہت سے اجنبی چہروں کی حا ضری اور ڈھول کی آوازسے چہکتاہے۔ ہر چیز جھومتی ہے۔یہ مزار ایک پہاڑی پر واقع ہے۔سڑک کے دائیں جانب سیڑھیاں چڑھتی ہیں ۔جس میں ایک سیڑھیاں خواتین کے لیئے مختص ہیں اور دوسری مرد حضرات کے لیئے۔ان دونوں سیڑھیوں کے بیچ میں صحن ہے جس میں رات دس بجے سے لے کر صبح کے چار بجے تک ڈھول بجتاہے۔اور پورا صحن اپنی ذات سے باہر کسی نشے میں گم لوگوں سے بھرا ہو تا ہے۔جو سب بھول کے رقص میں گم ہو جا تے ہیں ،آواز کا نشہ بہت خوبصورت ہوتاہے جیسے آپ آنکھ بھر کے چاند کو دیکھ لو اور بس اس کوخوبصورت چاندنی کے دودھیا ہالے کے سواآپ کو کچھ دکھائی نہ دے۔ییہ مزار شاہ جمال کے نام سے مشہورر ہے۔ڈھول کی تھاپ کے ساتھ جگنوجگمگاتے ہیں۔یہاں کے جگنو ماچس کی تیلیاں ہیں۔جو ہر چرس سے محبت کرنے واے کے لئے ایک استعارہ ہے۔یہاں ہر کوئی اپنی ذات سے فرار پاکر ایک وقتی دھندمیں گم جاتا ہے۔کیا کمال جگہ ہے جہاں خود سے فرار حاصل ہو،یہاں پورے صحن میں چاروں دیواروں کے ساتھ دروازے کا حصہ چھو ڑ کے دیوارکے ساتھ خود سے بھاگے ہوئے لوگ بیٹھے ہیں۔اور صحن کے وسط میںآواز کے نشے میں کھڑے اورجھومتے ہوئے لوگ۔صحن کے ایک کونے میں پیپل کا درخت،اوراس کی اوٹ میں بیٹھا ہوا شبراتی۔

جب سب لوگ خود سے فرار حاصل کرکے ایک خوبصورت دنیامیں گم ہیں۔تب اسے وہ وقت بہت کم لگتاہے اور ہر چہرے سے اک تحریر چرالیتاہے۔اور اس تحریر کو پورا ہفتہ پڑھتاہے اور پھر ایک نئی تحریر ڈھونڈتاہے۔اوربہت تھکے لہجے میں بڑبڑاتا۔

باقی ہے ،مگر باقی ہے۔۔

شبراتی کا تعلق روحی میں ایک خانہ بدوش قبیلے سے تھا۔شبراتی اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد ،بہت منتوں کے بعد پیدا ہوا۔جس وقت شبراتی دنیا میں آیا ۔ادھر شبرات کا چاند نطر آگیا۔تو اس لیے اس کا نام شبراتی پڑ گیاا۔وہ صحرا کی آب ہوا میں بڑا ہوا۔ریت کالمس ماں کے لمس جیسا تھا۔کیونکہ اس کا سارا دن ریت میں گزر جاتا ،بکریاں چراتے دوپہر میں اونگھ آتی ،اور وہ کسی بھی ریت کے ٹیلے پہ سو جاتا۔اس کو ادھوری چیزیں تنگ کرتی تھیأجب بھی شام ہونے لگتی ،وہ سب کام چھوڑ کے شام کا منظر دیکھنے لگتا،اسے یہ شام کا منظر ہمیشہ ادھوارا لگتا،اسے اسی اثناء میں دیرہو جا تی،اور اس کا باپ اسے دور سے آواز لگاتا

شبراتی،او شبراتی،تیں کتھاں گواچیا وے،ساکو سمجھ نہ آندی تیری ،تو یہاں بیٹھا کے سوالیاں پکا را،اور بولتے بولتے پاس آکے دو تھپڑ کان کے نیچے جڑتے۔وہ مار کھا کے خوشی خوشی سارے کام کر لیتا۔اس کا باپ بھی بہت حیران ہوتا کہ یہ مار کھا کے کبھی بھی روتا نھیں ہے۔اور بہت ہی خوب صورتی سے ہنس پڑتاتھا۔اور اس کے باپ کو اس کی ہنسی اور غصہ چڑھاتی ،اور وہ اسے بہت مارتا،مگر اسے جب کوئی فرق نہ پڑتا،تو وہ خود ہی ہار مان کے بیٹھ جاتے۔مگر اسے ہر چیز اد ھوری لگتی حتی کہ مار بھی۔جب کہ اسے معلوم نہیں تھا کہ مکمل کیا ہوتا ہے،مکمل کسے کہتے ہیں،

ہر بار وہ ہر معاملے میں اس لمحے میں رہتے ہوئے اگلے لمحے کا سوچتا تھا،جیسے اس کا دل بار ھا اسے کہتا ہو۔

باقی ہے،مگر باقی ہے۔۔