SIZE
1 / 5

"لو جی دس بجنے کو ہو گئے اور سکینہ کا کوئی پتا نہیں. لگتا ہے آج پھر چھٹی کر لی لگتا ہے. ایک تو اس نے بہت تنگ کیا ہوا ہے.

جس دن کام زیادہ ہو، اسی دن نہیں آتی. اب کیا اس گندے گھر میں بٹھاؤں گی مہمانوں کو؟"رضیہ بیگم صحن میں رکھے پلنگ پر بیٹھے

بیٹھے اپنے خدشے کا اظہار کیا اور ڈھکے چھپے الفاظ کسی متبادل حل کی تلاش کا بھی حکم صادر کر دیا جسکو انکی بہو نے بغیر کسی

دقت کے سمجھ لیا.

"یہ کونسی نئی بات ہے امی! سکینہ کا تو معمول ہے یہ.آپ فکر مت کریں میں کر لوں گی سب". ماہم نے ناشتے کے برتن اٹھاتے ہوئے تسلی

سے کہا.

"تم بھی کیا کیا کرو گی بیٹا! مگر میں بھی کیا کروں میں تو مجبور ہوں خود بھی. کبھی کبھی سارا سارا دن کام کرتے نہیں تھکتی تھی اور اب

کچھ کیا ہی نہیں جاتا".

اب یہ داستان انکی جوانی کی پھرتیوں سے بڑھاپے کی مجبوری تک کس کس پیچ و خم سے ہوتی ہوئی جائے گی. ماہم کو ازبر تھا. وہ سر

ہلاتے هوئے کچن کی طرف چل دی.

رضیہ بیگم کے بھائی اور بھاوج حج سے لوٹے تھے.

اسی وجہ سے آج انکی دعوت کا انتظام کیا جا رہا تھا. اس گھر کی بڑی اور اکلوتی بہو ہونے کے ناتے ساری ذمہ داری ماہم کے سر تھی.

حمزہ کو تیار کر کے وہ اسکول بھیج چکی تھی. ابو اور احمر دفتر جا چکے تھے اور یاسر کالج روانہ ہو چکا تھا. ناشتے کے برتنوں سے

فارغ ہوکر وہ صفائی میں مصروف ہوگئی. جھاڑو پوچے سے لے کر ڈسٹنگ تک سکینہ کے نہ آنے کی وجہ سے سب کچھ آج اسے ہی

کرنا پڑا. یہ کام نپٹا کر وہ دوپہر کا کھانا بنانے کچن کی طرف بھاگی.

"ماہم! سویٹ ڈش میں کیا بنائیں گے؟" وہ آٹا گوندھنے کے لیے نکال رہی تھی، جب رضیہ بیگم کی دروازے سے آواز سنائی دی.

"امی! وہ تو میں رات کو ہی کسٹرڈ بنا کر فریج میں رکھ دیا تھا. آج کام زیادہ ہو جاتا، اس لئے جو ہو سکتا تھا وہ میں نے رات ہی کر لیا".

اس نے جواب دیا.

"اچھا! رات کو بھی بنا لیا.....ٹھیک.....بیٹا پوچھ ہی لیتیں. عارف فرنی شوق سے کھاتا ہے. چلو! جو بن گیا. اب وہی ٹھیک ہے. دوبارہ تو

بنانے سے رہیں". وہ کہتی ہوئی پلٹ گئیں اور ماہم پھر سے مصروف ہو گئی. حمزہ اور یاسر گھر آگئے تو اس نے

کھانا لگا دیا. کھانے کے برتن سمیٹ کر ایک بار پھر کچن میں جاکر برتن دھونے لگی.

"ماما! میری اردو کی نوٹ بک نہیں مل رہی". حمزہ نے کچن میں آکر اعلا ن کیا. وہ برتن چھوڑ کر اسکی نوٹ بک ڈھونڈ نے چلی گئی.

"بیٹا! یہ الماری میں بلکل سامنے ہی تو پڑی ہے".

اس نے نوٹ بک نکال کر تھمائی اور واپس کچن کی راہ لی.

"بھابی!" یاسر کی آواز نے اسکو راستے میں ہی روک لیا.

"بھابھی! پلیز میری بلیو والی شرٹ تو نکا ل دیں. پتا نہیں کہاں گم پڑ گئی کپڑوں میں.....مل ہی نہیں رہی".