SIZE
2 / 4

ضمیر ہوٹل کی آرائش کو بہت توجہ سے دیکھ رہا تھا. میز پر رکھے آرائشی چمچوں اور کانٹوں کو چھو چھو کر دیکھتا.

"کافی مہنگے لگتے ہیں".

"ہوں... کشی نے آہستگی سے جواب دیا.

پھر مینو کارڈ پر قیمتیں دیکھ دیکھ کر اسکی روہ فنا ہونے لگی " یہ چاۓ سو روپے کی؟ آخر ایسا کیا خاص ہے اس چاۓ میں کیا

دودھ انگلینڈ سے آتا ہے یا پتی سونے کے مول ملتی ہے؟

"آج کل تو چینی سونے کے مول مل رہی ہے"

کشف نے جان بوجھ کر اسکی رگ غربت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی اور مجودہ حالات اور حکمرانوں پر پیپر پڑھنے لگا. حفیظ نے

بہت مشکل سے اسکو مینو کی طرف واپس لوٹایا پھر اس نے اپنے حساب سے سب سے کم قیمت ڈش پر نشان لگایا. وہ ڈش پر

نشان لگا کر واش روم میں چلا گیا اور کاشف نے اسکے جاتے ہی اسکے بجاتے میرے لتے لیے تھے.

"تمہیں کیا ضرورت تھی اسکو آفر کرنے کی؟ آنکھیں دیکھیں تھی اسکی کتنی غربت ہے ان میں. حلیہ تک تو ٹھیک نہیں ہے اسکا،

اسکی رگ رگ میں غربت بھری ہوئی ہے. غربت سمجھتے ہو ناں، یہ معاشی الٹ پھیر نہیں بس دلی طور پر کنگال ہونے کی نشانی

ہے ورنہ ہم نے بھی تو غربت میں آنکھ کھولی ہے مگر ہمارے اندر ایسی کوئی کمی نہیں ہے. انسان کی آنکھ سیراب ہونی چاہیے

یہ کیا غربت انسان کی آنکھوں سے جھانکتی حلیے سے ٹپکتی نظر آئے.

میں نے جوتے کی ٹو سے کاشف کو اشارہ دیا تھا کیوں کہ وہ اسکی پشت کی طرف سے خراماں خراماں چلتا ہوا واپس آرہا تھا.

کھانا دوستانہ ماحول میں کھایا گیا مگر اس نے تھوڑا کھا کر ہاتھ کھینچ لیا تھا.

"کیوں کیا ہوا، تمہیں کھانا پسند نہیں آیا"؟

"نہیں کھانا بہت اچھا ہے، اس لئے میں نے سوچا جمیلہ اور بچوں کے لیے لیتا جاؤں."

کاشف نے مجھے گھور کر دیکھا مگر میں جب تک بات سمبھالتا، وہ کھانے کو پیک کروانے کا آڈر دے چکا تھا. ہم تینوں

ہاتھ دھونے واش روم گئے تو کاشف بلبلایا ہوا تھا.

'بہت ہی گری ہوئی حرکت کی ہے اس نے، پورا کا پورا غربت کا چلتا پھرتا اشتہار ہے یہ تو. آئندہ تو نے اسے کوئی ایسی آفر

کی ناں، تی ہم دونوں تیرا گلا گھونٹ دیں گے".