SIZE
5 / 11

سنت نگر‘ کرشن نگر سے انار کلی جانا کون سا پہاڑ کھودنا تھا ،یہاں ارادہ کیا وہاں پہنچ گئے ۔تو یہ ارادے روز کئے جاتے ہیں۔دن میں کئی کئی بار کئے جاتے ہیں۔قرب وجوار ہی میں سب آباد تھے۔چھوٹے بڑے ،پانچ ماموں،تین خالائیں،اماں کی خالہ زاد بہنیں،ان بہنوں کے آگے پیچھے کے رشتے دار،ادھر ادھر کے چچا،چچی،رشتے کے نانا ،نانی دادا ،دادی،بہت رشتے دار تھے کہ صبح ملنے نکلوتو اگلی صبح واپس آؤ۔کچھ ایک ہی گلی میں رہتے کچھ ایک ہی بلڈنگ میں اوپر نیچے کچھ آگے پیچھے کی چھوٹی بڑی سڑک پر۔

جب تک دھنی بیاہی نہ گئی تھی تو وہ مشکل سے ان سب رشتے داروں کو اپنی شکل دکھاتی۔دھنی گئی تو وہ ان سب کو سلام کرنے نکلتی اور ایسے نکلتی کہ اماں کو جاکر ڈھونڈ کر اسے لانا پڑتا۔

وہ کسی ایک کے گھر جاتی،اسے سلام کرتی ،ذرا ادھر ادھر جھانکتی،اگلے گھر نکل جاتی۔تین چار جگہ حاضری لگواکر بھاگم بھاگ بڑی سڑک تک آتی بس اسٹاپ سے بس میں بیٹھتی اور آٹھ دس منٹ میں انارکلی پہنچ جاتی۔دوسوڈھائی سوجوتوں کی سیل والے کے پاس پہنچتی،اور آدھے گھنٹے میں واپس آجاتی۔

اماں کو شک ہوتا۔روز ہی ہوتا ،کسی خالہ ،مامی، نانی سے پوچھ لیتیں۔

’’ہاں آئی تھی‘‘خالہ کہتی

’’ارے ہاں نا چائے پی کر گئی برتن بھی دھو گئی پھرنوشاد کے گھر چلی گئی۔‘‘مامی بتاتیں

’’کیا ہوا آپا؟‘‘کوئی ایک پوچھ لیتا

’’ہونا کیا ہے،سلیم غصہ کرتاہے۔‘‘

’’کیوں کرتاہے غصہ۔رشتے داروں کے گھر نہیں آئے گی تو کہاں جائے گی۔پھر بیا ہی جائے گی توکہاں آنے دے گا کوئی۔ سلیم کو نت نئی سوجھتی ہے۔اپنے گریبان میں نہیں جھانکتا اس چنڈال کو چمن سے آئس کریم کھلا رہا تھا،کالے منہ والی۔۔۔ہونہہ!‘‘

’’میری تو سنتا ہی نہیں۔‘‘ اماں کو سلیم والی چنڈال کی فکر لگی۔

خیر ایک دن اماں نے اسے انارکلی جا لیا۔سیل میں رکھی جوتیاں پہن پہن کر دیکھ رہی تھی اور ایسے ہنس رہی تھی کہ آس پاس والے تعجب سے اسے دیکھ رہی تھے۔اماں نے کمر پر زور سے چٹکی بھری۔

’’یہ تو خالہ شکیلہ کے گھر کھڑی ہے نا۔۔۔؟‘‘

اس کی ہنسی جیسے تھمی اسے بھی آس پاس والوں نے تعجب سے ہی دیکھا۔

اس نے اماں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ضد تو وہ کر رہی ہیں اگر وہ اسے سیدھے راستے سے چلتا کریں تو وہ الٹے راستے کی طرف نہ جائے۔

’’سلیم تجھے جان سے مار دے گااُس دو پیسے والے کے ساتھ تجھے کبھی نہیں بیاہے گا۔۔۔کباڑیے ہیں وہ ،بھول گئی ،تیرا باپ کتنا ہنستا ہے ان پر۔۔۔‘‘

اس نے وہ قہقہ بلند کیا کہ اماں شرمندہ سی ہو گئیں ۔اس کے قہقہے میں بڑی وضاحتیں تھیں۔بڑے زہریلے کٹیلے طنز تھے۔

’’اماں مجھے کہتی ہومیرے کرتوت برے ہیں،بھلے مانس انسانوں کو گالی دے رہی ہو۔ان کی حلال کی کمائی پر لعنت بھیج رہی ہوان کے پیشے سے انہیں اوقات دے رہی ہو۔اماں۔۔۔ اب تو مجھے ہنس لینے دو۔‘‘

اماں نے اسے درفٹ کیا۔اس کا گھر سے جانا بند کیا۔جانا ہوتا تو وہ اپنے ساتھ لے کر جاتیں۔

***

چھوٹی عید ،بڑی عید ،شب برات ،عید میلادالنبی،محرم میں سب بڑے گھر(بڑے ماموں)کے گھر اکٹھے ہوتے تھے۔یہ بڑا تین منزلہ گھر تھا ،ایسے موقعوں پر گھر بھر جاتا۔ایسے میلہ لگے گھر میں اماں فجی کو ڈھنڈتی رہتیں،پہلا چوبارہ،دوسرا چوبارہ،تیسرا،کہاں گئی فجی۔۔۔؟؟