SIZE
3 / 9

ابا نے کڑوا گھونٹ بھرا اور اپنے کمرے تک محدود ہو کر رہ گئے اور بھابھی روایتی رسموں کی کتابیں پڑھ کر آئی تھیں.

نندوں اور سسر کو برداشت کرنا دور کی بات وہ انہیں دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی تھیں اور وہ اسکا اظہر برملا کرتی تھیں.

بڑے بھیا انکے عشق میں اندھے ہو چکے تھے پھر بھی اتنی مروت ضرور دکھائی کہ ہمیں گھر سے نکالنے کی بجاتے

خود ہی الگ ہوگئے اور ایسے گئے کہ اب عید بقر عید پر بھی شکل دکھاتے.

پھر مریم باجی کیوں کہ بڑے بھیا سے پانچ سال چوٹی تھیں اور انٹر ابھی کیا تھا کہ اماں کی سیکنڈ کزن نے اپنے بیٹے

سجاد کے لئے انکو پسند کر لیا کیوں کہ اماں کے انتقال کو ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا اس لئے ابّا نے بہت سادگی سے

مریم باجی کو سجاد کے ساتھ رخصت کر دیا.

اور اب میں ابھی انٹر کی سٹوڈنٹ تھی، مجھے پڑھنے کا بہت شوق تھا اور میں بہت سارا پڑھنا چاہتی تھی. ایم اے، پی ایچ ڈی

اور پھر میں بہت بڑی آدمی بن جاؤں گی. یہ میرے خواب تھے ابا کی بیماری نے میرا کالج بھی چھڑا دیا. مجھے اپنے

خوابوں کے ادھورے رہ جانے کا اتنا ملال نہیں تھا جتنا ابا کی بیماری نے پریشان کر دیا تھا. میں ہمہ وقت انکی خدمت

میں لگی رہتی لیکن صرف خدمت سے کیا ہوتا ہے دوادارو بھی تو ہو ہماری گزر اوکات صرف ابّا کی پنشن پر تھی

جس میں ڈال روٹی مشکل سے چلتی دوا کے پیسے کہاں سے لاتی.

پچھلی تین راتوں سے ابّا بلکل نہیں سوے تھے دمے کا اٹیک بہت شدید تھا. میں پوری پوری رات انکی پیٹھ سہلاتی رہی تھی.

اور اب میں اسی سلسلے میں بڑے بھیا کے پاس گئی تھی کہ ابّا کو ڈاکٹر کو دکھا دیں لیکن انکے کان پر تو جوں بھی نہیں رینگتی تھی.

لوگ بیٹے کی آرزو اس لیے کرتے ہیں کہ وہ بڑا ہوکر انکا سہارا بنے گا لیکن اب تو یہ باتیں خواب و خیال ہوگئیں ہیں.

میں چلتے چلتے جانے کہاں نکل آئی تھی، سورج اب سوا نیزے پر آگیا تھا. میرے حلق میں کانٹے چبھ رہے تھے. ٹانگیں

الگ شل ہوگئی تھیں. میں نے ہتھیلیوں سے آنکھیں رگڑ کر اطراف کا جائزہ لیا تو میرا دل مزید بوجھل ہوگیا. سامنے مریم

باجی کا گھر تھا میں کتنی دیر کھڑی ان کے دروازے کو تکتی رہی. سمجھ میں نہیں آرہا تھا کیا کروں. واپس پلٹنے کی

ہمّت تھی نہ مریم باجی سے ملنے کی کیوں کہ انکے حالات بھی بہت اچھی طرح جانتی تھی، بے چاری کتنی مجبوریوں میں

گھری ہوئی تھیں، بھرا پرا سسرال تھا ساس، سسر، جیٹھ، جیٹھانی، تین دیور اور ایک طلاق یافتہ نند جسے مریم باجی سے

خدا واسطے کا بیر تھا. انکی خدمتوں سے جو وقت بچتا وہ مریم باجی کے دو چھوٹے بچوں کے حصے میں آتا تھا.

میں نے سر اونچا کر کے آسمان کو دیکھا کہ شاید میرے خشک حلق میں وہی دو بوندیں ٹپکا دے لیکن وہ تو سورج

کی تمازت میں جل رہا تھا، تب نہ چاہتے ہوے بھی میں نے مریم باجی کے دروازے پر دستک دے ڈالی.اور پہلی دستک پر

ہی دروازہ کھلنے کے ساتھ ہی مریم باجی کا چہرہ نظر آیا تو میں بے اختیار ان سے لپٹ گئی لیکن شکر ہے آنسو اندر

اتر کر رسوائی سے بچا گئے.