SIZE
4 / 24

”پتا نہیں جی، ابا جی کو پتہ ہے۔“

”اچھا“ انہوں نے سر ہلا کر کہا۔ ”تو ابا جی سے پوچھا کرنا! ....جو پوچھتا نہیں اسے کسی بھی بات کا علم نہیں ہوتا۔“

میں چپ رہا۔

تھوڑی دیر انہوں نے ویسے ہی چلو ڈالتے ہوئے پوچھا۔ ”کونسا سیپارہ پڑھ رہے ہو؟“

”چوتھا“ میں وثوق سے جواب دیا۔

”کیا نام ہے تیسرے سیپارے کا؟“ انہوں نے پوچھا۔

”جی نہیں پتہ۔ ”میری آواز پھر ڈوب گئی۔

”تلک الرسل“ انہوں نے پانی سے ہاتھ باہر نکال کر کہا۔ پھر تھوڑی دیر بعد وہ ہاتھ جھٹکتے اور ہوا میں لہراتے رہے۔ بے بے مشین چلاتی رہی۔ وہ لڑکی نعمت خانے سے روٹی نکال کر برآمدے کی چوکی پر لگانے لگی اور میں جزدان کی ڈوری کوکھولتا لپیٹتا رہا۔ امی چند ابھی تک بیٹھک کے اندر ہی تھا اور میں ستون کے ساتھ ساتھ جھینپ کی عمیق گہرائیوں میں اترتا جارہا تھا، معاً داؤ جی نے نگاہیں میری طرف پھیر کر کہا....

”سورة فاتحہ سناؤ۔“

”مجھے نہیں آتی جی“ میں نے شرمندہ ہو کر کہا۔

انہوںنے حیرانی سے میری طرف دیکھا اور پوچھا ”الحمدللہ بھی نہیں جانتے؟“

”الحمدللہ تو میں جانتاہوں جی“ میںنے جلدی سے کہا۔

وہ ذرا مسکرائے اور گویا اپنے آپ سے کہنے لگے۔ ”ایک ہی بات ہے! ایک ہی بات ہے!!“ پھر انہوں نے سر کے اشارے سے کہا سناؤ۔ جب میں سنانے لگا تو انہوں نے اپنا پائجامہ گھٹنوں سے نیچے کرلیا اور پگڑی کا شملہ چوڑا کرکے کندھوں پر ڈال دیا اور جب میں نے والضالین کہا تو میر ے ساتھ ہی انہوں نے بھی آمین کہا۔ مجھے خیال ہوا کہ وہ ابھی اٹھ کر مجھے کچھ انعام دیں گے کیونکہ پہلی مرتبہ جب میں نے اپنے تایا جی کو الحمدللہ سنائی تھی تو انہوں نے بھی ایسے ہی آمین کہا تھا اور ساتھ ہی ایک روپیہ مجھے انعام بھی دیاتھا۔ مگرداؤ جی اسی طرح بیٹھے رہے۔ بلکہ اور بھی پتھر ہو گئے۔ اتنے میں امی چند کتاب تلاش کر کے لے آیا اور جب میں چلنے لگا تو میں نے عادت کے خلاف آہستہ سے کہا ”داؤ جی سلام“ اور انہوں نے ویسے ہی ڈوبے ڈوبے ہولے سے جواب دیا۔ ”جیتے رہو“۔

بے بے نے مشین روک کر کہا ”کبھی کبھی امی چند کے ساتھ کھیلنے آجایا کرو۔“

”ہاں ہاں آجایا کر“ داؤ جی چونک کر بولے۔ ”آفتاب بھی آیا کرتا تھا“ پھر انہوں نے بالٹی پر جھکتے ہوئے کہا ” ہمارا آفتاب تو ہم سے بہت دور ہوگیا اور فارسی کا شعر سا پڑھنے لگے۔

یہ داؤ جی سے میری پہلی باقاعدہ ملاقات تھی اور اس ملاقات سے میں یہ نتائج اخذکر کے چلا کہ داؤ جی بڑے کنجوس ہیں۔ حد سے زیادہ چپ ہیں اور کچھ بہرے سے ہیں۔ اسی دن شام کو میں نے اپنی اماں کو بتایا کہ میں داؤ جی کے گھر گیا تھا اور وہ آفتاب بھائی کویاد کر رہے تھے۔

اماں نے قدرے تلخی سے کہا ”تو مجھ سے پوچھ تو لیتا ۔ بے شک آفتاب ان سے پڑھتا رہا ہے اور ان کی بہت عزت کرتا ہے مگر تیرے اباجی ان سے بولتے نہیں ہیں۔ کسی بات پر جھگڑا ہو گیا تھا سو اب تک ناراضگی چلی آتی ہے۔ اگر انہیں پتہ چل گیا کہ تو ان کے ہاں گیا تھا تو وہ خفا ہوںگے، پھر اماں نے ہمدرد بن کر کہا ”اپنے ابا سے اس کا ذکر نہ کرنا۔“

میں ابا جی سے بھلا اس کاذکر کیو کرتا، مگر سچی بات تو یہ ہے کہ میں داؤ جی کے ہاں جاتا رہا اور خوب خوب ان سے معتبری کی باتیں کرتارہا۔