SIZE
1 / 24

یہ سردیوں کی ایک یخ بستہ اور طویل رات کی بات ہے۔ میں اپنے گرم گرم بستر میں سر ڈھانپے گہری نیند سو رہا تھا کہ کسی نے زور سے جھنجھوڑ کر مجھے جگا دیا۔

”کون ہے۔“میں نے چیخ کر پوچھا اور اس کے جواب میں ایک بڑا سا ہاتھ میرے سر سے ٹکرایا، اور گھپ اندھیرے سے آواز آئی ”تھانے والوں نے رانو کو گرفتار کرلیا۔“

”کیا؟“ میں لرزتے ہوئے ہاتھ کو پرے دھکیلنا چاہا۔ ”کیا ہے؟“

اور تاریکی کا بھوت بولا ” تھانے والوں نے رانو کو گرفتار کرلیا.... اس کا فارسی میں ترجمہ کرو۔“

”داو ¿ جی کے بچے“ میں اونگھتے ہوئے کہا ”آدھی آدھی رات کو تنگ کرتے ہو....دفع ہو جاو ¿.... میں نہیں.... میں نہیں.... آپ کے گھر رہتا۔ میں نہیں پڑھتا....داو ¿ جی کے بچے....کتے!“ اور میں رونے لگا۔

داو ¿ جی نے چمکار کرکہا ”اگر پڑھے گا نہیں تو پاس کیسے ہوگا ! پاس نہیں ہوگا تو بڑا آدمی نہ بن سکے گا، پھر لوگ تیرے داو ¿ کو کیسے جانیں گے؟“

”اللہ کرے سب مرجائیں۔ آپ بھی آپ کو جاننے والے بھی.... اور میں بھی .... میں بھی....“ اپنی جوانمرگی پر ایسا رویا کہ دو ہی لمحوں میں گھگھی بندھ گئی۔

داو ¿ جی بڑے پیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے جاتے تھے اور کہہ رہے تھے ”بس اب چپ کر شاباش.... میرا چھا بیٹا۔ اس وقت یہ ترجمہ کردے، پھر نہیں جگاو ¿ں گا۔“

آنسوو ¿ں کا تار ٹوٹتا جا رہاتھا۔ میں نے جل کر کہا ”آج حرامزادے رانو کو پکڑ کر لے گئے کل کسی اور کو پکڑ لیں گے۔ آپ کا ترجمہ تو....“

”نہیں نہیں“ انہوں نے بات کاٹ کر کہا ”میرا تیرا وعدہ رہا آج کے بعد رات کو جگاکر کچھ نہ پوچھوں گا....شاباش اب بتا”تھانے والوں نے رانو کو گرفتار کرلیا۔“ میں نے روٹھ کر کہا ”مجھے نہیں آتا“۔

”فوراً نہیں کہہ دیتا ہے“ انہوں نے سر سے ہاتھ اٹھا کر کہا ”کوشش تو کرو۔“ ”نہیں کرتا!“ میں نے جل کر جواب دیا۔

اس پر وہ ذرا ہنسے اور بولے ”کارکنان گزمہ خانہ رانو راتوقیف کردند.... کارکنان گزمہ خانہ، تھانے والے۔ بھولنا نہیں نیا لفظ ہے۔ نئی ترکیب ہے، دس مرتبہ کہو۔“

مجھے پتہ تھا کہ یہ بلا ٹلنے والی نہیں، نا چار گزمہ خانہ والوں کا پہاڑہ شروع کردیا، جب دس مرتبہ کہہ چکا تو داو ¿ جی نے بڑی لجاجت سے کہا اب سارا فقرہ پانچ بار کہو۔ جب پنجگانہ مصیبت بھی ختم ہوئی تو انہوں نے مجھے آرام سے بسترمیں لٹاتے ہوئے اور رضائی اوڑھاتے ہوئے کہا۔ ”بھولنا نہیں! صبح اٹھتے ہی پوچھوں گا۔“ پھر وہ جدھر سے آئے تھے ادھر لوٹ گئے۔

شام کو جب میں ملاجی سے سیپارے کا سبق لے کر لوٹتا تو خراسیوں والی گلی سے ہو کر اپنے گھر جایا کرتا۔ اس گلی میں طرح طرح کے لوگ بستے تھے۔ مگر میں صرف موٹے ماشکی سے واقف تھا جس کو ہم سب ”کدو کریلا ڈھائی آنے“ کہتے تھے۔