SIZE
3 / 8

۔خیر بوا کے کہے مطابق اس سے نوشی کا ہی فائدہ ہوا نا کہ اسے فجر کے وقت اٹھ کر جلدی جلدی کام نہیں نپٹانے پڑے۔آٹا گوند لیتی۔۔۔بالٹی انڈیل آتی۔۔۔کپڑے دھو لیے۔۔۔بالٹی انڈیل دی۔۔۔کمرہ جھاڑ لیا۔۔۔بالٹی انڈیل دی۔۔۔

کس کا فائدہ ہوا بھلا۔۔۔نوشی کا۔۔۔اور کتنا۔۔۔اس کا حساب ابھی ہونا تھا۔

باری باری سب اٹھتے جاتے بالٹی بھرتے جاتے‘ نہاتے جاتے جب تک سب ناشتا کر کے جا چکے ہوتے کچن کا برتن برتن خالی ہو چکا ہوتا ‘ ٹینکی میں پانی پیندے سے جا لگتا۔اب پھر قطرہ قطرہ پانی ٹپکتا۔۔۔بس ٹپکتا ہی رہتا۔۔۔

’’نوشی !بالٹی بھر گئی۔‘‘ساس اور بوا برآمدے میں بیٹھیں پانی کی چاکری کرتیں ذرا نہ چوکتیں

’’جی اچھا !‘‘ کچن کی کھڑکی سے وہ بالٹی کو ہی دیکھ رہی ہوتی، پھر بھی نکل کر دیکھتی

’’ابھی آدھی ہوئی ہے۔‘‘ زرا بلند آواز میں اعلان کر دیتی

’’آدھی ہی انڈیل دے تو اپنے دھیان میں لگی رہی اور پانی بہہ گیا تو۔‘‘ بوا ہنٹر نما ہنکار ا بھر کر کہتیں

لو کر لو بات۔۔۔جب سے وہ اس گھر میں آئی تھی ‘

اور سب بھلے سے کتنے ہی اپنے اپنے دھیان میں لگے ہوتے پانی کا ایک قطرہ نہیں بہنے دیتے۔وہ کچن میں کام کرے‘ کھاناپکائے ‘سبزی بنائے اپنے کمرے کی صفائی کرے،گھر کے دوسرے کام کرے،کرم کے‘

دیوروں کے کپڑے استری کرے،کھانا کھائے حتی کہ اُوپر چھت پر لیٹرین بھی جائے تو ساتھ ساتھ بالٹی ضرور انڈیلتی جاتی تھی۔آآکر انڈیلتی تھی۔مذاق تھا بھلا کوئی پانی تھا پانی۔

سسر کہتے

’’ پانی کی قدر کیا کرو بچوں ایک زمانہ دیکھا لوگوں نے کہ پانی پر جنگ ہوئی۔۔۔پھر خون بہا خون۔۔۔‘‘

خون بہہ رہا تھا نا۔۔۔نوشی کا۔۔۔اور جنگ بھی جاری تھی۔یہ بالٹی اس کا حق مہر تھی‘گرمی ‘ سردی‘بہار‘خزاں تھی اُس کے۔وہ کسی پل دن میں سو نہیں سکتی تھی۔

دیور آتے ہی ٹنکی کا ڈھکن اٹھا کر دیکھتے کہ کتنا پانی بھرا جا چکا ہے۔

’’نہا لے۔۔۔نہا لے۔۔۔‘‘ بوا بچکارتی۔

کارخانے میں کام کرتے تھے دونوں ‘

ان کا حق بنتا تھا نہانا۔ گھر کا صحن بارش کے دنوں میں ہی دھلتا تھا۔صحن میں سر خ ٹائلیں لگی تھیں۔بارش کے دنوں میں ہی سرخ نظر آتیں ورنہ مٹی سے اٹی رہتیں۔۔۔نوشی کو گھبراہٹ ہوتی۔وہ کوشش کرتی کہ جلدی جلدی سب

بھر جائے تو وہ دو بالٹیوں سے صحن کو دھو ڈالے کچھ مٹی چھٹے تو سانس آئے۔مگر ہوتا یوں کہ جیسے ہی سب بھر جاتا جو کہ بہت کم ہوتا۔بوا اٹھتی ۔

’’اچھا ہو،اب میں نہا لیتی ہوں۔‘‘

وہ نکلتی تو ساس چلی جاتی ‘ساتھ ایک دو کپڑے دھو ڈالتی‘بھاڑ میں گیا فرش۔ وہ اونی سویٹر سے بھگو بھگو کر ٹائلیں رگڑتی۔

’’کیوں اتنا پانی ضائع کر رہی ہے نوشی!‘‘

فرش رگڑ رگڑ کر اس کی جان نکلی جا رہی ہوتی اور مصیبت فکر پانی کی لگی ہوتی۔

برسات آئی ،موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔وہ بھیگ کر تر بتر ہو گئی پانی بھرنے میں۔غسل خانے کے باہر نلکا لگا تھا پانی کا پریشر اتنا ہوتا ہی نہ تھا کہ پائپ لگا کر ہی سب بھر لے۔کچن میں رکھے ڈرم بھرنے کے لیے

اس نے کرم کو کہا کہ وہ مدد کرے‘ پر وہ بار بار یہی کہتا رہا کہ ذرا فارغ ہو کر مجھے حلوہ بنا دو۔

پانی کے ساتھ اس کا رشتہ ایسے جوڑ دیا تھا سب نے جیسے نکاح اسی سے ہوا ہو اور اور سسرال سے منہ دکھائی میں بھی یہی ملا ہو۔

وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔اس کا پیر باورچی خانے کے فرش پر پھسلااور اس کی کلائی کی ہڈی تڑخ گئی۔بالٹی ہاتھ سے چھوٹی۔کلائی سے زیادہ سب کو اسی پانی بھری بالٹی کے گرنے کا غم ہوا اور خوب ہوا۔۔۔وہ جان ہی گئی۔

نوشی بھاگی اپنے میکے ہفتہ رہ کر آئی۔ اس نے اماں کو اپنے درد کی لمبی لمبی داستانیں سنائیں۔۔۔درد صرف ایک

’’پانی کا‘‘ دکھ صرف ’’پانی کے نہ ہونے کا‘‘ قصہ صرف اتنا ہی ’’ ٹپ ٹپ‘‘

۔اس کی اماں کے گھر پانی کا ایسا مسئلہ نہیں تھا۔اس نے تو زندگی میں کبھی پانی کے اتنے جھمیلے نہیں دیکھے تھے جن میں اب جی رہی تھی خوب روئی اماں کے آگے

۔خوب ہاہا کار مچائی کہ بہنیں رو رو پڑئیں کہ کیوں بیاہ دیا اس بے چاری کو ،ایساہی ضروری تھا تو انسانوں میں بیاہ دیتیں ۔اماں رات بھر کروٹیں لیتی رہیں،ابا کی چہل قدمی نہ تھمی۔

اماں نے جیسے تیسے ادھر ادھر سے پیسے پکڑ کر اسے دیے کہ کرم کو دے کر موٹر لگوا لے۔خوشی سے اسے ساری رات نیند نہ آئی۔اب وہ مزے سے دوپہر کو سویا کرے گی۔صبح کو آرام سے اٹھا کرے گی

۔وہ ملتان سے شادی ہو کر بڑے گوا آئی تھی۔شہر بدلا نصیب بھی بدلاکہ اس کا نصیب ہی پانی پانی ہو گیا۔پیسے لے کر خوشی خوشی گھر آئی کمرے میں کرم کو بٹھا کر چپکے سے بتایا۔ اس نے فوراََ سارے پیسے لے لیے۔

’’جاتا ہوں پتا کرتا ہوں کتنا خرچا آتا ہے۔