SIZE
3 / 5

" اس وقت تو قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہوں گی ." جواب میں شوہر نے خاموشی اختیار رکھی ' مگر ایک بولتی نظر بیوی پہ ضرور ڈالی کہ میرا بیٹا عید پہ نیا جوڑا ضرور پہنے گا .

دوسرے دن سہ پہر کو اس کی بھانجی زارا کا فون آیا کہ امی کا بلڈ پریشر خطرناک حد تک شوٹ کر گیا ہے . آپ جلدی سے آ جائیں تاکہ انھیں اسپتال لے جا سکیں . وہ بھاگم بھاگ بچوں کے ساتھ بڑی آپ کے گھر پہنچے . آج شاہان کی اپنے دوستوں کے ساتھ افطار پارٹی تھی .رات کو واپسی پر اسے احد کا سوٹ یاد آیا . اس کے کہنے پر زارا نے گاڑی کا رخ شاپنگ مال کی طرف کیا . کافی خواری کے بعد خدا خدا کر کے اسے ایک سوٹ پسند آ ہی گیا ' مگر قیمت پڑھ کر اس کا منہ کھلا رہ گیا .

" تین ہزار ...نہ بابا ...نا ..."

" کیا ہے خالہ!اتنی مشکل سے آپ کو سوٹ پسند آیا ہے آپ جتنی رقم میں سوٹ چاہتی ہیں وہ دیں .عید میں ایک دن تو رہ گیا ہے ." زارا جھنجھلا کر بولی . رقم ہاتھ میں آنے پر اس نے ایک ہزار اپنی طرف سے ڈال کر وہ سوٹ خرید لیا . وہ ارے ' ارے کہتی رہ گئی .

" ہمارے رزق میں رشتہ داروں کا بھی حصہ ہوتا ہے خالہ ...." بھانجی کی فراخدلی پر وہ جز بز ضرور ہوئی ' مگر مزید کچھ نہیں کہا . واپسی کا سیف زارا اور بچوں نے ہنس بول کر آئس کریم کھاتے ہوئے طے کیا ' لیکن وہ خاموش ہی رہی .

اس کا شوہر انکم ٹیکس میں انسپکٹر تھا . تقریبا اس کی تنخواہ پچاس ہزار تھی ' مگر وہ ہر وقت بچت کے چکروں میں پڑی مہنگائی کا رونا روتی رہتی . اس شہر میں اس کی صرف ایک بہن رہائش پذیر تھی . اپنی اکلوتی بھانجی کو بھی انسہ نے کبھی عید بقر عید پر تحفتا کچھ نہیں دیا تھا . حالانکہ اس کا بہنوئی ایک گورنمنٹ اسکول میں ٹیچر تھا . رات سوتے ہوئے بھی زارا کا جملہ اس کے کانوں میں گونجتا رہا کہ ہمارے رزق میں رشتہ داروں کا بھی حصہ ہوتا ہے جبکہ خود آنسہ غریب غربا اور مساکین کو بھی ناپ تول کر دیتی تھی . زارا نے کیسے جھٹ سے ہزار کا نوٹ نکالا تھا اور تین چار سو کی آئس کریم بھی بچوں کو کھلائی . اس کا بہنوئی بھی افطاری میں کیا کچھ نہیں اٹھا لایا تھا .

اپنے سامنے ایک ہی جیسے دو سوٹ دیکھ کر وہ صدمے کے مارے بے ہوش ہونے کے قریب تھی . "تت'تت تم مجھ سے فون پر تو پوچھ تو سکتے تھے ؟"شدید غصے میں وہ یوں ہی ہکلاہٹ کا شکار ہو جاتی تھی .

" او...ہو ...یار ! ڈیزائن ایک جیسا ہے تو کیا ہوا . رنگ تو مختلف ہیں ." اتفاقا ان دونوں میں بیوی نے ایک جیسے سوٹ خرید لئے تھے . شاہان نے ہاتھ بڑھا کر قریب کھڑے بیٹے کو قریب تر کیا اور اس کے پھولے رخساروں کو فرط محبت سے چوما .

" میں ابھی آیا پاپا ...." وہ ہاتھ چھڑا کر باہر کی طرف بھاگا .

" اب کومے سے باہر آ جاؤ ..." وہ بیوی کی پھٹی پھٹی آنکھوں کے سامنے ہاتھ لہرا کر بولا .

کوئی بات نہیں یار ... بلکہ اس بات کو انجوائے کرو کہ ہماری چوائس ہنڈرڈ پرسنٹ ملتی ہے ." آنسہ نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ احد دوبارہ اندر آیا . اس کے ساتھ تابی کا بیٹا شعبان بھی تھا جو احد کا ہی ہم عمر تھا اور اسے عید کا جوڑا دکھانے لگا .