SIZE
2 / 6

روز روز کے جھگڑے سے ٹانگ آ کر امتیاز صاحب نے ایاز کو الگ گھر دیکھنے کو کہا ' بہو کی تو جیسے چاندی ہو گئی ' ایاز کو روز اکساتی ' ایاز بھی اسکی زبان سے بہت تنگ تھا ' سوچا الگ گھر لی لوں سکون تو ملے گا . یوں وہ اسی محلے میں کرایے کے گھر میں شفٹ ہو گئے .آمینہ بیگم اور امتیاز صاحب نے بھی سکھ کا سانس لیا مگر وہ حسن کے عادی ہو گئے تھے . اس کی معصوم شرارتوں سے انکا گھر ہر دم مہکتا رہتا . آمینہ بیگم تو ہر وقت مصروف رہتیں . گھر میں ایک طرف کیاری بنا رکھی تھی جس میں دھنیا ' پودینہ ' پیاز ' ٹماٹر اور جانے کیا کیا اگا رکھا تھا . دو بندوں کا کام ہی کتنا ہوتا ہے . زیادہ وقت اپنی کیاری میں مصروف رہتیں یا پھر ایاز اور حسن کے کرتے کاڑھا کرتیں . مگر ایاز سے زیادہ انھیں حسن کی معصوم شرارتیں یاد آتیں.

دروازے پر دستک ہوئی تو وہ بے اختیار دروازے پر لپکیں . دروازہ کھولا تو امتیاز صاحب کے پیچھے بائیک پر بیٹھے حسن کو دیکھ کر تو نہال ہی ہو گیں . گود میں اٹھایا اور اندر لی آئیں . حسن تو گویا دھوپ میں جھلس گیا تھا . دادو نے جلدی سے شربت بنا کر پلایا ' منہ ہاتھ دھلا کر یونیفارم بدلہ اور نرم بستر پر لٹا دیا .

" لاؤ بیگم ! کھانا دو بڑی بھوک لگی ہے . " امتیاز صاحب بھی اتنی دیر میں کپڑے بدل کر کمرے میں آ بیٹھے . آمینہ بیگم نے جھٹ دستر خوان لگا اور وہ دونو ں وہیں آ بیٹھے .

" واہ آج تو گویا عید ہو گئی ." امتیاز صاحب نے دستر خوان پر سجے لوازمات کو دیکھتے ہویے کہا .