SIZE
3 / 4

وہ اس گھر کا جددی پشتی نمک خوار تھا اسے مجبور بھی کیا جا سکتا تھا لیکن چھوٹے چوہدری صاحب ایسا کرنا نہیں چاہتے تھے - پھر پتا نہیں باغ سے جدائی کا نتیجہ تھا یا کام کی نوعیت یا ماحول کی تبدیلی کا اثر کے وہ بیمار - اتفاق سے چھوٹے چوہدری صاحب ان دنوں گاؤں آے ہوے تھے ، انہوں نے موقے کو غنیمت جانا اور علاج کے بہانے کو شہر گۓ -

علاج سے چند روز بعد کرمو ٹھیک ہو گیا تو چوہدری صاحب ساتھ سیر پے لے جانے لگے اور اسے باغوں ، پارکوں ، نرسریوں اور ایسی سڑکوں پر گھماتے جن کے دونو جانب ملکی اور غیر ملکی اشجار کی قطاریں تھی - کرمو نیے نیے درخت اور خوش ہوتا مگر یہ خوشی ادھوری تھی یہ خوبصورت درخت اسے اجنبی لگتے تھے -

چوہدری صاحب کی کوٹھی میں بھی باغبانی کا شوق پورا کرنے کی کافی گنجائش تھی - اس کا دل بہل گیا - چھوٹے چودری صاحب نے بیگم کو سمجھا دیا تھا کے دارو پر شروع میں کم کا زیادہ بوجھ نہ ڈالیں اور اسے اچھے خانے ور telivision کی عادت ڈالیں -

کرمو کو بیس سے زیادہ گنتی نہیں آتی تھی ، تنخواہ کے پیسے ہاتھ آے تو گنتی بھی آگئی اور خرچ کے لئے راستے بھی نکل آے - دارو کا بھی دل سپر مارکیٹ اور باڑے کے چکر لگانے کو مچلتا رہتا تھا - ہر مہینے نی نی چیزیں خریدی جانے لگی اور کوارٹر سے ریڈیو کی آوازیں بھی آنے لگی - یوں گاؤں واپسی کا راستہ روز بروز دھول ہوتا چلا گیا -

انہیں گھر میں ہر طرح کا کا آرام حاصل تھا لیکن اس کے باوجود کچھ ہی ارسا بعد کرمو اداس رہنے لگا تھا - اسے نہر والا باغ یاد آتا تھا جو اب بھی اس کے اندر آباد تھا -

وہ وہی باغ کے اندر کٹیا میں پیدا ہوا تھا اور اسی میں پلا بڑھا تھا - اسے پورا باغ ازبر تھا -

کرمو کو گپ شپ کی عادت تھی - نہر والا باغ گاؤں سے کافی فاصلے پر تھا اور بہت کم لوگوں کا وہا آنا جانا تھا مگر درخت اس کی زبان سمجھتے تھے درخت بھی اس کی زبان نہ سمجھتے تھے - ڈرائیور زیادہ تر گھر سے باہر رہتا تھا اور باورچی اپنے کم میں مصروف -

کوٹھی میں کرمو سے پہلے بھی ایک پارٹ ٹائم مالی کم کرتا تھا اور گھر میں بہت سے اور پھول پودے تھے لیکن کرمو کے آنے کے کچھ ہی ارسا میں سارا گھر گل و گلزار بن گیا گھر کے عقبی حصے میں آ م کا ایک پیڑ تھا جسے بہت کم پھل لگتا تھا ایک روز کرمو نے کہا " چوہدری صاحب اس بار آ م کا یہ پیڑ بہت پھل دے گا "

" وہ کیسے " بیگم نے پوچھا

" میں نے اس کی بہت خدمات کی ہے آپ کو یاد ہے قربانی کے بکروں کا خون بھی اس کی جڑوں میں ڈالا تھا اور اب مہینے اسے صاف صاف کہ دیا ہے کے اگر وہ پھل نہیں دے گا تو اسے کاٹ دیا جائے گا "

" آ م کے پیڑ نے کیا جواب دیا ہے " چوہدری نے ہنستے ہوے پوچھا

" رت آنے دیجئے پھر دیکھئے کیا جواب دیتا ہے " کرمو نے وثوق سے کہا اور جب پھل لگنے کا موسم آیا تو چوہدری اور ان کی بیگم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کے سچ مچ اس برس آ م کے پیڑ کو اس قدر پھل لگا کے پچلے چھ سات برسوں میں کبی نہیں لگا تھا -

دارو اب مکمل طور پر شہری رہن سہن اور آسائشوں کی عادی بن گئی تھی اس کی عادت اور اتوار بھی بدل گئی تھی مگر کرمو ویسے کا ویسے گوار تھا اس پر شہر کی زندگی نے کچھ بھی اثر نہ ڈالا تھا -