SIZE
3 / 4

ان دنوں افراد خانہ ویسے ہی خاصے تناؤ کا شکار تھے۔ ابھی چند ماہ قبل ہی رانیہ کی شادی خوب دھوم دھام سے انجام پائی تھی۔ فیروزہ بیگم اس بار بھی دور کی کوڑی لائی تھیں۔ یعنی اپنے دور پار کے ایک عزیز رشتے دار کے توسط سے یہ رشتہ ہوا تھا۔ لڑکا گھر میں سب سے چھوٹا تھا اور یتیم بھی تھا۔ قبول صورت، مناسب تعلیم یافته، پابند صوم وصلوۃ تھا۔ مضافات علاقے سے نکال کر اس شہر میں اسے ملازمت دلوائی گئی تھی۔

یہ تو بعد میں انکشاف ہوا کہ مقصد دراصل اسے گھر داماد بنانا تھا۔ رانیہ کے اطوار بھی بعد میں ہی کھلے تھے۔ اب ایسی نخریلو، نازک مزاج، شاہانہ طرز زندگی گزارنے والی رانیہ اتنی قلیل تنخواہ میں بغیر خدمت گاروں کے کیوں کر زندگی بسر کرسکتی تھی۔ سو گھر داماد بننے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ لیکن یہاں معاملہ داماد کا تھا، بہو کا نہیں۔

سو سب سے پہلا خلاف توقع کام تو یہ ہوا کہ داماد جی نے خاموشی سے سسر جی کی عنایت کرده نوکری کو خیر باد کہہ دیا اور ایک پرائیویٹ فرم میں جاب کر لی۔ سابقہ تجربے کی بنا پر انہیں اچھی تنخواہ مل رہی تھی۔ دوسرا بڑا دھماکہ یہ ہوا کہ داماد جی نے سختی سے کہہ دیا کہ وہ کھانا اگر کھائیں گے تو صرف اپنی بیوی رانیہ کے ہاتھ کا بنا ہوا۔ یہ سنتے ہی رانیہ کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ رانیہ تو وہ ملکه تھی جس نے

آج تک سامنے میز پر پڑے جگ سے گلاس میں اپنے لیے پانی تک نہ انڈیلا تھا۔ تیسری ضد یہ کے داماد جی اڑ گئے تھے کہ ان کے کپڑے صرف رانیہ دھوئے گی، خواہ ہاتھوں سے دھوۓ یا واشنگ مشین سے، لیکن کوئی تیسرا ان کے کپڑوں کو چھوۓ گا بھی نہیں۔

ابھی ایک سچویشن سے سنبھلنے نہ پاتے کہ دوسری افتاد آن پڑتی۔ سمجھ سے بالاتر تھا کہ ان حالات سے کیسے نبرد آزما ہوا جائے ۔ انسان سوچتا کیا ہے اور ہوتا کیا ہے۔ " میں نے کتنی بار تجھے کہا نا فیروزہ کہ لڑکی کو زیادہ نہیں تو تھوڑی بہت ہی گھر داری سکھا۔ اپنا آپ سنبھالنے لائق تو کر۔۔۔۔۔ لیکن تیرے بے جا لاڈ پیار نے تو اسے ہاتھ پاؤں ہلانے کے قابل بھی نہیں چھوڑا۔" دادو نے فیروزہ بیگم کی سرزنش کرتے ہوۓ کہا۔ فیروزہ بیگم نے گہراسانس اندر کھینچا اور موبائل فون پر اسکرین آگے پیچھے کرنے لگیں۔

" ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا ہے ماں جی! میری معصوم بچی۔ اسے تو دنیا کی ہوا ہی نہیں لگی، لیکن یہ لڑکا بہت شارپ ہے۔ میری بچی کو دنیاداری اور اس کے کاموں کا کیا پتا۔" فیروزہ بیگم نے اپنی بیٹی کی وکالت کی۔

" اے ہے! یاد ہے تجھے میں نے جب کہا کے عائلہ کو دیکھ، کیسے کاموں میں جتی رہتی ہے، کولہو کے بیل کا طرح۔ رانیہ اسے دیکھ کے ہی کچھ سیکھ لےتو، تو نے کیا کہا تھا۔" دادو نے لاؤنج میں داخل ہوتی عائلہ کو دیکھتے ہوۓ کہا۔

"مجھے کچھ نہیں یاد! آپ بھی کن پرانی باتوں کو لے کر بیٹھ گئی ہیں ماں جی! مجھے اور بھی کئی فکریں ہیں۔ " فیروزہ بیگم نے بہو کی آمد کے پیش نظر بات پلٹنے کی کوشش کی۔