SIZE
1 / 4

رات ہونے والی بارش اور تیز طوفان نے صحن کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔

جا بجا پھیلے شہتوت ، پیپل، نیم اور جامن کے پتے اپنی چھب دکھلا رہے تھے۔ اپنے کمرے سے نکل کر اس نے کوفت بھری نگاہ پورے صحن پر ڈالی تھی۔ اس سہ منزلہ عمارت میں ' کیونکہ نیچے والے پورشن میں رہنے کا شرف اسے حاصل تھا ، اس لیے آندھی طوفان کی باقیات سمیٹنا بھی اسی کے ذمے ہوتا تھا۔ نہ چاہتے ہوۓ بھی۔

یہ گھر اس کے بابا کی محنت کی کمائی سے بنا تھا۔ انہوں نے رشتوں کو جوڑ کر رکھنے کی عادت اپنے ابا سے پائی تھی اور ان کے ابا نے اپنے ابا سے ، سو وہ اب تک سب ہی کو سینت سینت کر رکھے ہوۓ تھے۔ دوسری منزل پر چھٹن چاچا اور بنو خالہ کا نواسہ تھا ، جبکہ اس سے اوپر مشتری رہتی تھی، غلام ماموں کے ہمراہ ۔ ایک پورے کا پورا جنجال پورہ تھا اس گھر میں ، مانو گھر گھر نہ ہو' اچار کا ڈبا ہو' جس میں گاجر، مولی، ہری مرچیں ، لیموں اور آم سب مکس کر کے ڈال دیا گیا ہو۔ مشتری تو رہتی تھی، ابھی چند دن پہلے ہی بنے میاں کا ٹرانسفر ہوا تھا' تو وہ بمعہ اپنے کنبے کے دوسرے شہر سدھارے تھے ، وگرنہ تو ایسا لگتا تھا' " نور منزل" کسی مچھلی منڈی کا نام ہو۔

" پہلے بابا جان کے لیے سوپ بنا لیتی ہوں۔"

اس نے ہر چیز پر طائرانہ نگاہ ڈالی تھی۔ ہر چیز مٹی' مٹی ، بابا جانی کی طبعیت اب کنٹرول میں ہی نہیں آتی تھی۔

تبھی شوگر بڑھ جاتی، تو کبھی بلڈ پریشر اپنے نقطہ عروج کو پہنچ جاتا۔ ان کی قلیل پنشن میں بڑا کھینچ تان کر گزارا ہو رہا تھا۔ کیونکہ نور منزل کے مکینوں کو بھی

کر گزارا ہورہا تھا۔ کیونکہ نور منزل کے مکینوں کو بھی اپنے کچن کے لیے راشن لانے کی توفیق رب نے نہ کی تھی۔ جانے کب سے بابا جانی دو افراد کے لیے لانے والا مہینے بھر کا راشن بیس لوگون کے لیے لاتے تھے۔

سو بہانے تیار ملتے تھے۔

چھٹن چاچا کی ورکشاپ بند پڑی تھی۔

بنو خالہ کی مشین سارا سارا دن چلتی تھی، مگر آمدنی صفر۔

مشتری رشتے کراتی تھی، پر جانے کیسے رشتے کرواتی تھی کہ ایک دھیلہ نہ ملتا تھا۔