SIZE
4 / 9

اس رات میں سونے سے پہلے سوچ رہا تھا اورپھر یہ سوال جیسے میرے دل کے اندر ہی کہیں کھبا رہ گیا تھا میں نے سوچا اگر پھر کبھی میں ماموں سے ملا تو ضرور پوچھوں گا کہ تاجو زیادہ خوب صورت تھی یا تائی جیراں۔ " جب میں نے دوسری بار تائی جیراں کو دیکھا تو میری عمرچودہ سال تھی۔۔۔۔ یعنی پورے چار سال بعد۔۔۔۔

جنوری کا مہینہ تھا گاؤں سے نانا کی بیماری کی اطلاع آئی تھی۔ ہم افراتفری میں گاؤں کے لیے روانہ ہو گئے ۔ ان دنوں ابو کھاریاں میں تھے۔ میں جب بھی چھٹیوں میں گھر آتا تھا توامی مجھے بتاتی تھیں کہ جیراں تجھے بہت یاد کرتی ہے۔ بہت پوچھتی ہے تیرا۔ پھر میں بھی پوچھ لیتا کہ تائی جیراں کیسی ہے۔

" ارے بہت اچھی ہے میری بھرجائی۔ قسمت کا دھنی ہے میرا ویر۔ سارے گھر کو یوں سنبھالا ہوا ہے کہ میری نانی تو سمجھ بس چارپائی پر بیٹھ کرعیش کرتی ہے۔" میں اس کی تعریف سن کر خوش ہوتا تھا۔

صحن میں قدم رکھتے ہوئے میری نظریں بے اختیار برآمدے کی طرف اٹھی تھیں لیکن برآمدہ خالی تھا اور تائی جیراں احاطے کی طرف سے دودھ کی بھری بالٹی اٹھا کر اندر آ رہی تھی۔ اس نے پھول داردوپٹہ لیا ہوا تھا اور ہلکے نیلے رنگ کی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی۔ پتا نہیں کیوں میرا دل چاہا تھا کہ وہ اسی طرح کال ٹاسے کی لنگی اور ریشمی آتشی گلابی قمیض پہنے بے نیازی سے بیٹھی چلم پی رہی ہوتی۔

" ارے کاکے!" وہ بالٹی برآمدے میں رکھ کر میرے قریب آئی۔ " ارے یہ تو ہے کاکے! اتنا لمبا ہو گیا ہے تو۔" وہ بہت اشتیاق سے مجھے دیکھ رہی تھی اور میں اس کے پیار کرنے پر شرما گیا تھا۔

" میرا نام عثمان ہے۔ مجھے کاکا نہیں بلائیں۔"

" اچھا۔۔۔۔ نہیں بلاؤں گی پر مجھے تو کاکا ہی اچھا لگتا ہے۔"

پھر میں جتنے دن وہاں رہا' وہ مجھے کاکا ہی بلاتی رہی اور پہلے دن کے علاوہ میں نے پھر اسے کا کا بلانے سے منع نہیں کیا۔

اس بار تقریبا دو ہفتے رہے تھے۔ کیونکہ نانا کی طبعیت ٹھیک ہوتے ہوتے پھر خراب ہو جاتی تھی۔ ان دو ہفتوں میں تائی جیراں کو میں نے صبح منہ اندھیرے اٹھتے اور رات گئے تک کام کرتے دیکھا تھا۔ وہ صبح کاڑھنی میں بچا ہوا دودھ کوئلوں کی دھیمی آنچ پر رکھ دیتی تھی جو سارا دن کڑھتا رہتا۔ پھر رات میں اسے جاگ لگا کر رکھ دیتی تھی اور پھر صبح صبح اٹھ کر جب میں برآمدے میں آتا تو وه برآمدے میں دائیں طرف پیڑھی پر بیٹھی لسی بلو رہی ہوتی تھی۔ مدھانی کی رسیوں کے ساتھ اس کے بازوں کی حرکت کو میں دلچسپی سے چارپائی پر بیٹھا دیکھتا رہتا۔ گاہے گاہے وہ مڑ کر مجھے بھی دیکھتی اور مسکراتی۔

وہ چاٹی میں سے مکھن نکال کر بڑے سے گول پیالے میں رکھتی جاتی تھی اور جب سارا مکھن تیار ہو جاتا تو وہ باورچی خانے کی طرف چلی جاتی۔

اسی اثنا میں سب ہی اٹھ کر اپنے اپنے کمروں سے نکل کر باورچی خانے میں جمع ہوجاتے۔ باورچی خانه بہت بڑا تھا۔ اسی باورچی خانے میں ایک طرف دیوار کے ساتھ گدا بچھا ہوا تھا جس پر نیلے رنگ کی گلابی دھاریوں والی چادر بچھی رہتی تھی ۔ سب اسی گدے پر بیٹھ جاتے اور وہ گرم گرم پھلکے پکا کر ان پر مکھن رکھ کر سب کو دیتی جاتی۔ ساتھ میں رات کا بچا سالن اور

چائے۔ سردیوں میں تینوں وقت سب باورچی خانے میں ہی کھاتے پیتے تھے۔ چولہے کے پاس بیٹھے ہوئے روٹیاں پکاتے ہوئے بھی گاہے گاہے وہ ماموں کی طرف دیکھتی اور اس کے گالوں پر وہی گلال بکھرجاتا تھا' جو چار سال پہلے ماما کی طرف دیکھتے ہوئے بکھرتا۔ ان دو ہفتوں میں اس نے مجھ سے بہت ساری باتیں بھی کی تھیں۔