SIZE
2 / 7

ثمینہ جب بیاہ کراس گھر میں آئی تو بہت جلد ہی ان دونوں میں روایتی ساس بہو کا رشتہ بن گیا تھا۔ اگرچہ یہ رشتہ یک طرف تھا۔ یعنی صرف ثمینہ کی طرف سے' مگر سچ تو یہی تھا کہ شیشے میں بال آ ہی کا تھا اور اس کی چبھن بھی سب سے زیادہ تو خود ثمینہ کو ہوتی تھی۔

حالانکہ جب انور سے بات پکی ہوئی تھی' وہ کتنی خوش تھی۔ ان کی برادری کے سب سے خوش حال

گھرانے کی عورت نے اس کا انتخاب کیا تھا۔ وہ جتنا بھی اٹھلاتی کم تھا۔ ایک دوپہرجب وہ ململ کے سفید دوپٹے پر چھلنی سے آٹا بکھیرے جلدی جلدی سے بڑیاں بنا کر ڈال رہی تھی' اس کی ہونے والی ساس آ گئیں۔ اماں کے تو ہاتھ پیر پھول گئے۔ ابھی پچھلے ہفتے ہی تو وہ منگنی کا شگن کر کے گئیں تھیں پھر اب۔۔۔۔

" کوئی ایسی ویسی بات' کسی بھاری بھرکم جہیز کامطالبہ۔۔۔۔۔۔"

ثمینہ تو بھاگ کر پچھلے گھر میں رہنے والی بتول خاله سے چینی کی پیالیاں لینے چلی گئی تھی۔ خاص الخاص مہمان کو چائے جو پلانی تھی اور اماں نے لپک کر بان کی کھری چارپائی پر نیلی سفید ڈبیوں والا کھیس بچھا دیا۔

اور جب چائے پی جا چکی تھی' ثمینہ برتن بھی اٹھا لائی تھی تو اس کی ماں نے کھیس کی ڈبیوں کو جانے کتنی بار گنتے ہوۓ ہلکے سے پوچھ ہی لیا۔

" ویسے آپ آئی تو خیرسے ہی ہیں ناں بہن جی!"

تو ان سے بس پانچ قدم پیچھے کھڑی ثمینہ نے اپنی بائیں ہاتھ کی وہ انگوٹھی بڑی زور سے اپنی شہادت کی انگلی اور انگوٹھے سے پکڑ لی تھی ' جیسے اس کی ساس کے منہ سے بس ایک لفظ نکلے گا اور وہ انگوٹھی ٹھک سے اس کی انگلی سے نکل کر گر پڑے گی۔

" کچھ نہیں بہن ! میں تو بس آپ کا بہت سارا شکریہ ادا کرنے آئی ہوں۔"

" شکریہ' وہ کس لیےجی؟" ثمینہ کی ماں سچ مچ حیران ہو گئی تھی۔

" آپ کی بیٹی آپ کے لیے اس دنیا کی سب سے زیادہ خوب صورت اور قیمتی شے ہو گی بہن! اور یہی شے آپ نے میری خالی جھولی میں ڈال دی ہے۔ یہ تو آپ کا بہت بڑا احسان ہی ہوا ناں مجھ پر' میرے گھر پر' تو بس یہی کہنے آئی ہوں آپ سے کہ آپ کا بہت بہت شکریہ بہن!"

ٹھک کرکے ثمینہ کے ہاتھ سے واقعی کچھ زمین پر گر گیا تھا۔ نیلے پھولوں والی سچی چینی کی پیالی کچے فرش پر الٹی پڑی تھی اور ثمینہ کی ماں کے گرد اس کی ساس کے بازووں کا گھیرا تھا' جو اسے پھوٹ پھوٹ کر رونے سے روک رہی تھی۔ ثمینہ نے ابھی جو اپنے کانوں سے سنا تھا اس پر وہ خوش زیادہ تھی یا حیران' اسے خود اندازہ نہیں ہو رہا تھا۔ وہ کبھی فرش پر گری کچی چینی کی پیالی کو دیکھتی اور کبھی خود سے ایک قدم آگے کھڑی' بہت سا روتی ہوئی اپنی ماں کو۔

تب ہی اس رات ثمینہ کی ماں نے اسے سمجھایا تھا۔

" ایک بات یاد رکھنا! کبھی اس عورت کو دکھ مت دینا۔ آج اس کے ایک شکریہ نے تیری ماں کے دل کو جو ٹھنڈک دی ہے اب یہ تیرا فرض ہے کہ ساری عمر اس کے سامنے اپنی گردن جھکا کر ہی رکھنا۔ لوگ جس

گھر سے بیٹی مانگیں ' اس پر سو احسان دھریں گے' پر جانے یہ کیسی عورت ہے جو شکریہ ادا کرنے چلی آئی بیٹی والوں کا ۔ رب سوہنا اس کی بڑی ساری خیر کرے۔ لمبی حیاتی دے' اپنے بچوں کی سب خوشیاں دیکھے۔" اس کی ہر سانس میں جیسے اب صرف دعائیں ہی باقی رہ گئی تھیں قرض لوٹانے کو۔