SIZE
3 / 7

ربیعہ ہنسی۔ رحمت اگر حد سے زیادہ ہو جائے تو زحمت بن جاتی ہے۔ جیسے بن مانگی بارش۔"

دادی کو پڑھی لکھی پوتی کی نا عاقبت اندیشی پر افساس ہوا تھا ۔ کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا پھر بند کر دیا کہ بخوبی جانتی تھیں دونوں ماں بیٹی ان کی باتوں کو اکثر ردی کے مول رول دیتی تھیں۔

نائمہ بھابی کے بھائی کی شادی کی تاریخ طے ہوگئی تھی۔

وہ آج کل بری وغیروکی شاپنگ کے سلسلے میں بری طرح مصروف تھیں اور اپنی بہنوں کے ساتھ بازار نکل جاتیں' واپسی شام ڈھلے ڈھیر سارے شاپنگ بیگز کے ہمراہ ہوتی۔

انہوں نے بطور خاص اپنی اور بچیوں کی شاپنگ کی تھی۔ اس وقت لاؤنج میں شاپنگ بیگز کھولے وہ سب کو اپنی شاپنگ دکھا رہی تھیں۔

" یہ مہندی پر پہنوں گی' یہ مایوں پر اور یہ والا بارات کے لیے ٹھیک رہے گا نا بڑی بھابی؟" کپڑے کھول کر دکھاتے ہوۓ وہ سب سے مشورے بھی لے رہی تھیں۔

ربیعہ کشن گود میں رکھے چینل سرچنگ میں مصروف تھیں ۔ لیکن جب انہوں نے ولیمہ میں پہننے کے لیے گہرا سبز سوٹ نکالا جس پر سلور نفیس سا کام تھا' ربیعہ بے ساختہ نگاہیں اٹھا کر اس کی طرف دیکھنے پر مجبور ہو گئی۔

" واؤ!" بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا۔

" پیارا ہے ناں؟" انہوں نے قدرے اشتیاق سے پوچھا۔

" ہاں بہت۔" ناعمہ بھابی مسکرائی تھیں۔

" مجھے کب سے ایسے سوٹ کی تلاش تھی۔" مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ ربیعہ اس سوٹ پر ستائشی انداز میں ہاتھ پھیرتی ہنوز گود میں لیے بیٹھی تھی۔

" اگر اتنا ہی اس پر تمہارا دل آ گیا ہے تو تم رکھ لو ربیعہ !" چاۓ کی چسکیاں لیتے رضا کی فراخدلانہ آفر پر نائمہ بھابی کا دل تھمنے لگا تھا۔

" کیا واقعی؟" ربیعہ نے ابرو اچکاۓ۔

" ہاں ' ہاں بھائی خود تو کہہ رہا ہے تمہیں۔ نائمہ پھر اور لے لے گی اپنے لیے۔تمہیں تو ویسے بھی بہت کم کچھ پسند آتا ہے۔" اماں نے فورا"ہاں میں ہاں ملائی تھی۔

بڑی بھابی نے نائمہ کا چہرا دیکھا۔ جو ضبط کی نجانے کون سی منزل سے گز رہی تھی۔ وہ تنگ دل نہیں تھی۔

آنکھوں کے کناروں سے ٹپکنے کو بے تاب قطرے اندر ہی کہیں بہت خاموشی سے گرے تھے۔ کسی نے رسمی طور پر بھی اس سے پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔

بعض اوقات بظاہر معمولی باتیں بہت دل دکھاتی ہیں!

ان دنوں وہ سالانہ امتحانات کے بعد فارغ تھی۔ رات گئی کتب بینی کرتی ' دن چڑھے سوئی رہتی۔ کسی کو اس کے روز و شب پر اگر اعتراض تھا بھی تو کہنے کی جرات کوئی نہیں رکھتا تھا کہ وہ ماں کی لاڈلی' بھائیوں کی دلاری تھی۔

اماں آج کل سنجیدگی سے اس کے رشتے کے بارے میں سوچ رہی تھیں۔ اس سلسلے میں شکیلہ خالہ کے گھر ان کے آج کل باقاعدگی سے چکر لگ رہے تھے۔ اور یہ اماں اور شکیلہ خالہ کی مشترکہ کاوشوں کا ہی نتیجہ تھا کہ کچھ عرصہ میں ایک متمول گھرانے سے اس کا رشتہ آ گیا۔ اسجد اکلوتا تھا۔ خوبرو' برسر روزگار' دو شادی شدہ بہنیں اسی شہر میں اپنے اپنے گھر خوش و خرم زندگی گزار رہی تھیں۔ ریاض احمد عمر کے اس حصے میں تھےجہاں سارے فرائض سے سبکدوش ہونے کے بعد فارغ البالی کے احساس سے سرشار زیادہ تر وقت دوستوں کے ساتھ " بیٹھک" میں ہی گزارتے۔ رہ گئیں مہناز بیگم' تنہائی و اکتاہٹ کا شکار دل مین چاند سی بہو لانے کی تمنا شدت سے جاگ اٹھی تھی۔