SIZE
3 / 7

" بھئی بلا لیجیے بیٹی کو' ہم بے چین ہیں اپنی بیٹی کو دیکھنے کے لیے۔"۔ سفید چکن کی چادر میں پیشانی تک لپٹی سائرہ ان کے درمیان آن بیٹھی ' ابو سر جھکائے عاجز و خاکسار کے روپ میں شرافت کو مات دیئے بیٹھے تھے۔

اس کا دل تو پہلے ہی کھٹا ہو چکا تھا ' ابو ہر تقریب خواہ وہ سالگرہ کا فنکشن ہو یا مہندی' شادی کا' اسی حلیے میں بیٹیوں کو جانے پر مجبور کرتے کہ زیادہ نمایاں نہ ہوں اور نہ لوگوں کو انگلیاں اٹھانے کا موقع مل سکے۔ عورتوں کے درمیان بھی وہ بیٹھی ہوتیں تو دوپٹے میں لپٹی بیٹھی ہوتیں۔

دل الگ حسرت کدہ بن رہا تھا اپنی پسند کے کپڑے' جیولری پہننے کو' میک اپ کے نام پر کاجل' سرمہ کے علاده کچھ لگانے کی اجازت نہیں تھی' پر وہ شک نہیں کرتے کہ دونوں پر اعتماد تھا۔ آج تک کوئی غلط نظراٹھا نہ پایا تھا لیکن اکیسویں صدی میں اتنی سادگی کسے پسند تھی۔

وسیم کی بڑی بہن بھی اس سے باتیں کرتی رہی' تھوڑی دیر بعد وہ لوگ رخصت ہوئے۔ ابو بہت مطمئن تھے ان لوگوں کے انکار تک' اس کی عزت نفس کو جو دھچکا پہنچنا تھا وہ پہنچ چکا۔ یہ جان کر دل کو تسلی دی کہ ہر لڑکی کے ساتھ کبھی نہ کبھی ایسا ہوتا ہے۔ ابو بیڈ پر بیٹھے سوچتے رہتے' امی کی سرد سانس گھر کی فضا میں گونجتی رہتی۔

" ہمارے گھر دولت کی ریل پیل نظر نہیں آئی ہو گی سو اپنی راہ چل دیئے محض شرافت آج کل چاہیے بھی تو نہیں ۔" ابو نے کہا تو امی نے اثبات میں سر ہلایا۔

زندگی روٹین پر چل پڑی۔ وہ ایم اے ایجوکیشن کی طالبه تھی' پڑھنے لکھنے کے دوران بھی کبھی خیال آتا تو سر جھٹک دیتی۔ زندگی میں جو لکھا ہے وہ کسی نہ کسی صورت بھگتنا ہوتا ہے۔ اس طرح کے کئی رشتے آئے اور گئے' امی ہمیشہ ہی حیران رہتیں' متوسط گھرانے میں سادہ نقوش

والی لڑکی کے لیے رشتہ بھی کم اسٹینڈرڈ کا نہیں آتا۔ کوئی ڈاکٹر' کوئی انجنئیر' اعلی عہدوں پر فائز رشتے اس گھر کا رخ نہیں کرتے لیکن یہ کیسا نصیب تھا بیٹی کا کوئی ایک بار آتا تو دوبارہ رخ نہ کرتا۔ قسمت کی اس دورخی پر پریشان بھی بہت تھیں۔

ہمیشہ ابو کی ہدایت کے مطابق مہمانوں کے سامنے کانوں کے بندے تک اتاردیتی۔ جب لڑکے والوں کی طرف سے انکار ہو جاتا ابو متحیر رہ جاتے۔ پتا بھی انہیں ہوتا ہے کہ ہم سفید پوش لوگ ہیں' انکار کرنے سے پہلے قدم نہ بڑھائیں تو کیا بگڑ جائے ۔ لوازمات کی چیزوں پر الگ خرچہ اٹھ رہا تھا جسے وہ لوگ اپنے ہاتھوں سے تیار کریں اور ابو فخر کے سارے رنگ سمیٹ کر نگاہوں میں داد پیش کررہے ہوتے۔

" ہماری دونوں بیٹیاں ماشاءاللہ بہت سگھڑ ہیں۔"

" ماشاء اللہ۔۔۔۔۔۔ رشتے والیاں بھی مسکرا کر تحسین پیش کرتیں لیکن اس داد و تحسین کے آگے کچھ تکمیل نہ پاتا۔ اس کا ایم اے مکمل ہوگیا ڈگری سینے سے لگائے وہ بیٹھی تھی' سمجھ نہیں آتا اب کیا کرے۔ جاب کا تو سوچ بھی نہیں سکتی کہ ابو سخت خلاف تھے وہ خود بھی گھر سے نکلنے پر مائل نہیں تھی اب تو ابو امی کی ساری پریشانیاں اور اپنے اوپر اٹھنے والی یاسیت بھری آ نکھوں کے رنج اپنے اندر محسوس کرنے کی تھی۔ اس عرصے میں کئی لوگ اس کے لیے آۓ اور گئے اور جو اچھے رشتے سمجھتے ان لوگوں کی طرف سے انکار ہو جاتا۔

امی کے وظیفے بڑھتے گئے' سجدے لمبے ہو گئے ۔ ابو کی پیشانی پر فکروں کی لکیروں میں اضافہ ہوتا رہا۔ اسی اثناء میں امبر نے گریجویشن مکمل کرلیا تو اس کے لیے رشتے آنے لگے۔ کچھ عجیب ہی ٹوٹ پھوٹ اس کے اندر جاری تھی یہ نہیں کہ اسے جیلسی محسوس ہوتی بس کچھ کم مائیگی کا احساس سوا ہو جاتا لیکن اس ادھیڑ بن میں نہ امبر کا کچھ بن پایا نہ اس کا۔