SIZE
3 / 8

ماما نے بات ختم کردی تو مجھے بھی خاموش ہونا پڑا مگر وہ جو دھڑکا تھا وہ چین نہیں لینے دیتا تھا۔

اس روز بینش کی برتھ ڈے تھی۔ تمام فرینڈزمیں سے اس نے صرف مجھے انوائٹ کیا تھا اور یہ بات میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں تھی اتنے لینڈ لارڈ باپ کی بیٹی مجھے سر آنکھوں پر بٹھاتی تھی۔ یہ پارٹی ہوٹل میں سیلیبریٹ کی گئی تھی۔ میں بہت خوبصورت وقت بیش کے ساتھ گزار کے اور اپنی جیب خوب اچھی طرح سے ہلکی کر کے بھی گویا ہواؤں میں اڑتا رہا تھا۔ رات گئے جب میں سرشار سا لاٹا تو سب سے سے پہلے میرا سامنا عائزہ سے ہی ہوا تھا۔

" کہاں رہ گئے تھے آپ؟ سیل بھی آپ کا مسلسل آف جا رہا تھا۔ آپ کو کچھ احساس بھی ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔"

" اوئے ہیلو! تم یه سوال مجھ سے کرنے والی ہوتی کون ہو۔ ہاں؟ بیوی ہو میری یا پھر میری ماں؟ میں نے اپنی زندگی میں یہ حق تمہیں کبھی بھی نہیں دیا۔ سمجھیں۔ میں دیر سے گھر لوٹوں یا رات بھر باہر رہوں' تمہیں جواب دہ نہیں ہوں میں۔"

اس کی بات درمیان میں سے ہی کاٹ کر میں گویا اس پر برس پڑا تھا ۔ اس کا گلابی چہرا ایک دم زرد پڑ گیا۔ یہ سچ تھا کہ بچپن سے جنم لینے والی اس نفرت نے مجھے کبھی بھی اس سے سیدھے منہ بات نہیں کرنے دی تھی مگر میں ماما سے ڈرتا تھا اس لیے بھی منہ در منہ اس کو سنائی بھی نہ تھیں مگر میری خشمگیں نظریں ' میرا لیا دیا انداز ہی اسے محتاط کرگیا تھا۔ ہمارے بیچ بہت گریز تھا وہ مجھ سے بہت کم مخاطب ہوا کرتی' وہ بھی کسی بہت ضرورت کے موقع پر۔ وہ بہت باوقار لڑکی تھی۔ ایسی لڑکی جس کی خود بخود عزت کرنے کو دل چاہے مگر میرا نہیں۔ میں تواس سے بس نفرت ہی کرتا تھا جبھی اس وقت بھی اس کا دھواں ہوتا چہرا مجھے نادم کرنے کی بجاۓ کام کرنے بجائے مزید متنفر کر گیا۔

" اب جاؤ بھی یہاں سے اپنی رونی صورت لے کر۔اونہہ!"

" ایزد کیا بد تمیزی ہے یہ؟"

ماما یقینا میری بلند آواز پر ہی گھبرا کر کمرے سے باہر آئی تھیں ان کا چہرا ستا ہوا اور آنکھوں کے پپوٹے بوجھل تھے۔

" اسے سمجھا دیں ماما میرے معاملات میں ٹانگ نہ اڑایا کرے۔" میرا غصہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا حالانکہ وہ وہاں سے جا چکی تھی۔ تمہارا سیل آف تھا'

تم صبح سے گھر سے باہر تھے' شہر کے حالات کا تمہیں پتا ہے۔ بیٹا اس پریشانی نے میرا بی پی شوٹ کردیا ۔ بہت پریشان تھی وہ بھی میرے ساتھ اسی پریشانی میں۔ تمہیں تمہاری بے حسی کا احساس دلانا چاہا تھا۔ یہ غلطی تھی اس کی۔

ماما کی آواز ایک دم سے آنسوؤں سے بھاری ہوگئی۔ میں نے ہونٹ بھینچ لیے اپنی غلطی کے احساس پر نہیں ایک بار پھر اسی کی حمایت پر۔ تب مجھے احساس ہی نہ ہوتا تھا' در حقیقت میں ہی غلط ہوں۔

" اب کیسی طبعیت ہے آپ کی؟"

میں نے خود کو کمپوز کیا اور ان کے قریب آکر کاندھوں سے تھام کر انہیں سہارا دیتے ہوئے ان کے کمرے کی جانب لے جانے لگا۔ مجھے اب جا کے اس اعتراف میں بھی عار نہیں کہ میں کسی حد تک دوغلا بھی تھا۔ اس وقت مجھے ناگواری محسوس ہوئی تھی مگر میں نے ناگواری ظاہر نہیں کی بلکہ ماما سے ہمدردی ظاہر کی تھی جسے ظاہر ہے وہ سمجھ نہیں پائیں اور میری اس حرکت کو اپنی غلطی کا احساس سمجھ کر خوش ہو گئیں۔

" بیٹا! اتنی رات تک گھر سے باہر نہ رہا کرو۔ اور عائزہ سے اس طرح بات مت کرنا آئندہ۔ یتیم بچی