SIZE
4 / 6

پیار کا موسم جوبن پر تھا۔ ہر طرف درختوں نے نئی شادابی' تازگی اوڑھ رکھی تھی۔ امید کی نئی کونپلیں نمو پزیر ہونے لگیں۔ اقتدار کی کھوکھلی جڑوں پر ووٹوں کے پتے اگنے کاموسم آ گیا۔

اسمبلی ممبر نے اپنے امریکا پلٹ بیٹے کو عوامی لباس میں ملبوس دیکھا تو خوشی سے باچھیں کانوں کی لووں کو چھونے لگیں۔

بڑا تاریخی دن تھا آج کا ۔ ان کی چوتھی نسل اقتدار میں شامل ہو رہی تھی۔ ان کے دادا انگریز سرکار کے زمانے میں' پیروکار باپ ہمیشہ سے کبھی کیبنٹ کاوزیر' کبھی سینیٹر تو کبھی اسمبلی ممبر رہا۔

پھر اقتدار ان کی طرف منتقل ہوا۔ وہ تیس سالوں سے ان داؤ پیچ کے ماہر کھلاڑی' اب اپنے بیٹے کو بلدیاتی الیکشن میں لا رہے تھے۔ تاکہ ضلعی ناظم بن کر مستقبل میں وزیر بننے کی تیاری کر لے۔ صدیوں پر مبنی شہنشاہیت ملک کے عوام پر مسلط تھی۔

ان کے باڈی گارڈ نے پراڈو کا دروازہ کھولا۔

دونوں باپ بیٹے نے بلدیاتی الیکشن کی کیمپئین شروع کر دی۔

چاۓ ' پانی ' کھانا سب میسر تھا۔ جو بھی آفس میں آتا اس پر عزت کے دروازے کھلے ہوۓ تھے۔

دونوں باپ بیٹا خندہ پیشانی سے لوگوں کا استقبال کرتے ۔ سالوں سے وعدوں کی ایک لمبی زنجیر میں

دلاسوں کی اور کڑیاں ملا کر اس کی طوالت بڑھائی جا رہی تھی۔ طوالت ہر الیکشن میں بڑھتی چلی جا رہی تھی۔

آہستہ آہستہ سارے لوگ اس زنجیر کے طول و عرض میں زنجیر پا ہوتے گئے۔

ہر بار ووٹوں کی بہار ختم ہونے پر وہ زنجیر زنگ آلود ہو جاتی۔ اس پر جھوٹ کی کائی جم جاتی

یہ موسم بہار یعنی الیکشن کا ایک ماہ ان غریبوں اور دو ٹکے کے آدمیوں کا بے حد خوبصورت گزرتا۔ بڑے بڑے سردار' میر' پیر' وڈیرے 'سابقہ وزیر' ایم این ایز' ایم پی ایز ان دو ٹکے کے آدمیوں کے پاس آتے۔ مدتوں سے التوا میں پڑی تعزیتوں کا قرضہ چکایا جاتا۔

شادیوں کے لفافے ملتے ' تب جب بچے پیدا ہو چکے ہوتے۔ گلے شکوے کرتے دو ٹکے کے آدمیوں کو پسینے کی بساند کے باوجود گلے لگایا جاتا۔ ان کے آگے متکبر ہاتھ باندھے جاتے ۔ منانے کے جتن کیے جاتے۔

ایک اور باری لینے کے لیے بیوقوف بنایا جاتا۔

الیکشن ان اشرافیہ کے لیے اولمپک کے کھیلوں کی طرح ایک کھیل ہی تو تھا۔ جہاں ہر کوئی اقتدار کے تمغے جیتنے کے لیے پیسے کی بازی لگاتا ۔ جو جیت جاتا اس کی بلے بلے۔ جو ہارتا وہ کمر سہلاتا' شراب میں غم غلط کرتا رہتا۔ جیت کا تمغہ سجانے والا ہر طرح سے کما لیتا۔ ہارس ٹریڈنگ ہو یا وزیرو مشیر بنے یا نوکریاں بیچے۔ ان عوام کے غم بیچنے والوں کے دور میں اگر اللہ کے کرم سے قدرتی آفات آ جاتیں تو وہ اور بغلیں بجاتے کہ اب مفت کا مال بنانے کا موقع آیا۔