SIZE
3 / 5

" امی جان دل کی بری نہیں آپی' بس ان کی عادت ہی کچھ ایسی ہے۔" ہما نے خوامخواہ ساس کی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی۔

" دل میں کون جھانک کر دیکھ سکتا ہے چندا' بندے کی اچھائی برائی کا زبان سے ہی پتہ چلتا ہے۔" تارہ آپی نے گہری سانس اندر کھینچی تھی ہما خاموش ہو گئی' تارہ آپی اور چھوٹی بھابی زرا سی دیر میں واپس چلی گئی تھیں ہما نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ بہت جلد ثاقب کے ساتھ ان سے ملنے آۓ گی' ثاقب واقعی اسے دو دن بعد تارہ آپی سے ملوانے لے گیا تھا۔

" بہت سمجھدار اور صابر شاکر بیوی ہے تمہاری ثاقب میاں' اس کی قدر کیا کرو۔" تارہ آپی نے ثاقب کو نصیحت کی تھی ثاقب نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلا دیا' وہ بھلا مانس شخص تھا ہما سے محبت بھی کرتا تھا اور اس کا خیال رکھنے کی اپنی سی ہر ممکن کوشش بھی کرتا تھا لیکن اپنی ماں کی ہر وقت طنز کرنے والی عادت کا اس کے پاس بھی کوئی توڑ نہ تھا' وہ بیوی کو ہی برداشت کی تلقین کرتا ہما میں برداشت کا مادہ بہت تھا لیکن جب کسی دوسرے کے سامنے عزت افزائی ہوتی تب ضبط کرنا مشکل ہو جاتا اس روز وہ دوپہر کے کام نمٹا کر ذرا سستانے لیٹی تو جلد ہی گہری نیند نے آن گھیرا' روز کی نسبت خاصی دیرسے آنکھ کھلی وہ بوکھلا کر کمرے سے نکلی' امی جان کی چاۓ کا وقت تھا اور انہیں اپنے کسی بھی کام میں ذرا سی بھی دیر سویر گوارا نہیں تھی۔

کچن میں جانے سے پہلے لاؤنج سے گزر ہوا تو پروس کی فاطمہ آنٹی کو ان کے پاس بیٹھے دیکھا' اس نے رک کر انہیں سلام کیا۔

" اٹھ گئی بیٹی' آؤ زرا دو گھڑی کو یہاں فاطمہ کے پاس بیٹھو میں چاۓ بنانے جا رہی ہوںاور تم صرف چاۓ پیو گی یا ساتھ کوئی کیک بسکٹ بھی لاؤں۔" وہ پاؤں میں سلیپر ڈال کر بہو سے استفسار کر رہی تھیں۔

" آپ بیٹھیں امی میں دو منٹ میں چاۓ بنا کر لائی۔" ہما شرمندہ ہوتے ہوۓ بولی۔

" ارے ہم تو گھنٹے بھر سے بیٹھے ہی ہوۓ تھے کب سے چاۓ کی طلب ہو رہی تھی پھر تمہاری فاطمہ آنٹی بھی آ گئیں انہیں اکیلا بٹھا کر کچن میں جاتی اچھی لگتی کیا' بس اسی لیے تمہاری منتظر تھی۔ تم جاگ گئی ہو تو بیٹھو' خوب سوئی تھکن تو اتر گئی ہو گی باقی گرما گرم چاۓ پی کر اتر جاۓ گی' ابھی تمہیں چاۓ بنا کر پلاتی ہوں۔ بس دو منٹ کی مہلت دو۔" وہ چہرے پر مسکراہٹ سجاۓ اپنے مخصوص طنزیہ انداز میں مخاطب تھیں۔

" میں چاۓ لاتی ہوں امی آپ بیٹھیں۔" ہما دھیرے سے کہہ کر کچن میں چلی گئی وہ مزے سے بیٹھ کر پڑوسن سے گپیں لگانے لگی تھیں ' مقصد بہو کو شرمندہ کرنا تھا سو وہ مقصد پورا ہو گیا تھا۔

" ثاقب کی دلہن تو بہت سیدھی ہے زینب ' یہ بتاؤ سرمد کے لیے لڑکی کی تلاش مکمل ہو گئی کیا۔" فاطمہ بیگم پوچھ رہی تھیں۔

" ثاقب کی دلہن اتنی سیدھی نہیں ہے گنوں کی پوری ہے میرے بھولے بھالے بیٹے کو اپنی مٹھی میں کر رکھا ہے' حالانکہ نہ شکل' نہ صورت' میکہ بھی تگڑا نہیں ہے وہ تو میری مت ماری گئی تھی جو میں نے اپنے ہیرے جیسے بیٹے کی یہاں قسمت پھوڑ دی' سرمد کے لیے لڑکی کا انتخاب خود چھان پھٹک کر کروں گی دو ہی تو بیٹے ہیں میرے اب بہو کے انتخاب میں غلطی کی گنجائش ہی کہاں بچتی ہے۔" وہ نخوت بھرے انداز میں بولی تھیں' فاطمہ بیگم نے بھی ہنکارا بھرا تھا۔