SIZE
3 / 10

جیسے کوئی بچہ بچپن سے ہی یتیم ہو جاۓ۔۔۔۔ بس باپ کا نام جانتا ہے۔۔۔ اپنے نام کے ساتھ جوڑتا ہے۔۔۔ مگر اصل میں وہ باپ کو بحیثیت انسان پہچانتا ہی نہیں۔۔۔ اسی طرح کچھ عورتیں شادی کے دن سے ہی شوہر سے محروم ہو جاتی ہیں۔۔۔ مجھ جیسی شادی کے دن سے شوہر سے محروم ہو جانے والی عورت کے لیے بھی مہربانی کر کے "یتیم" جیسا ہی کوئی لفظ ایجاد کیا جاۓ کیونکہ ایسا لفظ ایجاد ہو گا تو ہی ہم جیسی عورتوں پر لوگ رحم کی نظریں ڈالیں گے ۔ ورنہ جن کے شوہر بیرون ملک کی کمائی بھیج رہے ہوں' ان پر دنیا رشک کرتی ہے۔

" مجھے کبھی بھی بڑے بڑے بنگلے۔۔۔ گاڑی۔۔۔ بینک بیلنس کا شوق نہیں رہا۔ انسان اپنی حد میں رہے ' جو نصیب میں رزق لکھا ہے ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی خوشی مل بانٹ کر کھا لے۔ ایک دوسرے کو وقت دے اور بس۔۔۔ زندگی میں اور کیا چاہیے؟"

ولیمہ کے بعد کی پہلی صبح میز پر ناشتہ لگاتے ہوۓ میں نے کہنے کو تو کہہ دیا تھا ' مگر شوہر صاحب کا اونچا قہقہہ سن کر گھبرا کر ان کی والدہ کی طرف دیکھنا شروع کر دیا تھا۔ خالہ جان اپنی جگہ جمی بیٹھی متانت سے مسکرا رہی تھیں ' مگر اسی وقت ان کی انکھوں میں جیسے کچھ زردی سی دو چار لمحوں کے لیےامڈی تھی۔۔۔ اور پھر وہ بھی بیٹے کا ساتھ دیتے ہوۓ بتانے لگی تھیں کہ شوہر صاحب کو تو اس ملک میں اپنا مستقبل بالکل ہی تاریک لگتا ہے۔ وہ بچپن سے فیصلہ کر کے بیٹھے تھے کہ آسٹریلیا یا برطانیہ جائیں گے اور وہیں بس جائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہی میرے لیے بھی ہدایات تھیں کہ میں بھی تیاری پکڑوں کہ ان کے برطانیہ لوٹ جانے کے کچھ ہی دنوں میں شوہر صاحب مجھے بھی بلا لیں گے۔

میرا دل بجھ گیا۔۔۔۔ مگر انکار کی گنجائش ہی کہاں تھی۔۔۔ اگر مجھے باہر نہیں جانا تھا تو باہر کے لڑکے سے شادی ہی کیوں کی تھی۔۔۔ یہ المیہ بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ بیرون ملک میں کام کرنے والے لڑکے کا رشتہ اکثر اوقات قبول کر لیا جاتا ہے۔۔۔ کیونکہ ملک سے باہر کام کرنا بھی ایک طرح کی ہائی فائی کوالی فیکیشن ہے جو رشتے میں چار چاند لگا دیتی ہے۔

مگر میرے معاملے میں یہ بات نہیں تھی۔۔۔۔ میری والدہ نے اپنی بیماری اور بڑھاپے میں جلد از جلد فیصلہ کیا تھا اور مجھے نپٹا دیا گیا۔۔۔۔ کیونکہ ساس صاحبہ ۔۔۔ میری والدہ کی دوستوں میں شامل تھیں اور میں ان کو خالہ جان کہا کرتی تھی۔۔۔۔ شوہر صاحب نے شاید میٹرک کر کے ہی کسی نہ کسی طرح ملک سے باہر نکلنے کی راہ پیدا کر لی تھی اور ڈھائی دو سال میں اپنی ماں سے ملنے آ جاتے تھے۔ ان کے جانے کے بعد سے خالہ جان کا ہمارے ہاں آنا جانا زیادہ ہو گیا تھا۔ پہلی بار امی کو ہارٹ اٹیک ہوا تو وہ خالہ جان سے گھنٹوں یہی پوچھتی رہتیں کہ میرا کیا ہو گا۔۔۔ خالہ جان ان کو دلاسہ دیتی جاتیں اور اپنی کوشش کر کے چند ایک رشتوں کو بھی گھر لے آئی تھیں۔۔۔ مگر ہماری حیثیت تو سامنے تھی ۔۔۔ دو کمروں کا کواٹر جیسا مکان۔۔۔ جس کے ایک کونے پر دکان نکال کر کرایہ پرلگا کر امی جان نے اپنی تھوڑی سی آمدنی کا انتظام کر لیا تھا۔ میں نے گریجویٹ کے بعد اسکول میں پڑھانا شروع کر دیا تھا اور ہم دونوں ماں' بیٹی کی خاموش زندگی بڑے بھلے انداز میں گزر رہی تھی۔