SIZE
1 / 5

کئی دنوں کی بیزاری اور بھید بھری خاموشی کے بعد اماں آج اٹھ کھڑی ہوئیں اور ناشتے کے بعد ہی گودام کا رخ کیا جہاں اماں کے جہیز کی ٹین کی پیٹی کئی سالوں سے پڑی اونگھ رہی تھی۔ آج وہ بھی ہڑبڑا کےجاگی' بازو پھیلا کے انگڑائی لی اور جمائی روکے اشتیاق سے اماں کو تالا کھولتے دیکھنے لگی۔ ویسا ہی اشتیاق جو ہر بار زرمینے گل کی معصوم انکھوں میں امڈ آیا کرتا ' مگر آج زرمینے گل کی سبز شربتی آنکھیں اداس تھیں' جیسے ویرانے میں کوئی کائی زدہ تنہا جھیل۔

پیٹی کیا کھلی' ایک کے بعد ایک نوادرات کا ظہور ہونے لگا۔ برسوں کی محنت ' اماں کی زرمینے گل کے ساتھ بندھی واحد دلچسپی ' اس کا جہیز جمع کرنا۔

کراچی سے خریدی گئی سندھی کڑھائی کی چادریں ' ایپلک ورک کے پلنگ پوش ' گلگت سے منگواۓ گئے ' چائنا کے ڈنر سیٹ' کانچ کے گلدان' لکڑی کی آرائشی لڑیاں' پشاور کے باڑے سے منگواۓ گئے فرانسیسی پتھر کا ڈنر سیٹ' افغانی قالین' جاپانی اسمگل شدہ کپڑا اور جانے کیا کیا' مگر زرمینے گل ان سب سے بے نیاز یک ٹک ٹیکسلا سے لاۓ گئے سنگ مر مر سے تراشے ہاون دستے کو دیکھے گئی۔ ان سب مختلف النوع بیش قیمت چیزوں سے قیمتی' ابا میاں کی اس کے جہیز کے لیے خریدی گئی واحد چیز ' کیسی مہک رہی تھی' ابا میاں کے شفقت سے اٹے بوڑھے وجود کی مہک سے۔

ابا میاں اور زرمینے گل' جانے کب ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہو گئے۔ مورخ اس بارے میں خاموش ہے' کچھ شواہد اس امر کی جانب نشان دہی کرتے ہیں کہ چونکہ اماں اپنی بڑھاپے کی اس غلطی پر شرمندہ ' کئی روز تک منہ چھپاۓ چھپاۓ پھریں اور ازالے کے طور پر ننھی سی شربتی آنکھوں والی زرمینے گل سے لا تعلقی اختیار کر لی بوجوہ کہ اماں دو عدد نواسوں اور ایک نواسی کی نانی کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد ترقی کے زینے عبور کرنے کے بعد دادی اماں کا رتبہ پانے والی تھیں کہ زرمینے گل نے آ کے سب کیے کراۓ پر پانی پھیر دیا۔

نتیجتا زرمینے گل کو غیر شادی شدہ چھوٹی اپا نے گود لے لیا اور ابا میاں کو بعد از ریٹائرمنٹ وقت گزاری کا نیا مشغلہ ہاتھ آ گیا۔ بڑی آپا' سدا کی خود غرض ' منتقم مزاج' کینہ پرور' کم عمری کی شادی کا تاوان ابھی تک موقع بے موقع ' ابا میاں اور اماں کو طعنے دے دے کر' گلے پر چھری رکھ کر بھرواتی آ رہی تھیں اور اکلوتے بھیا ہمیشہ کے جذباتی' زرمینے گل کی پیدائش پر جوشیلی اور حوصلہ شکن کٹیلی تقریریں کر کے عزیز از جان اہلیہ کی جوش طبعی اور دل لگی کا سامان کرتے رہے۔