SIZE
5 / 12

" تم ایسا کرو۔ یہ رکھ لو۔ تم خود جا کر اپنی پسند سے۔۔۔۔۔"

میں نے ہمیشہ اس کے ساتھ باہر گھومنے پھرنے سے احتیاط برتی کہ کوئی ہمیں باہر ایک ساتھ دیکھ نہ لے۔ ہمیشہ کی طرح مجھے والٹ نکالتا دیکھ کر شگفتہ کا منہ اتر گیا اور امجد کا منہ کھل اٹھا ۔ وہ فورا نزدیک ایا جبکہ شگفتہ کہہ رہی تھی۔

" یہ پیسے کیوں دیتے رہتے ہو ہر وقت ۔ یہ کوئی تمہارا نعم البدل تو نہیں ہے۔ کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہےتم میرے ساتھ وقت بتانے کی قیمت چکاتے ہو۔"

" شگفتہ! میں غصے سے لال پیلا ہو گیا۔" ائندہ یہ بات منہ سے نکالی تو اچھا نہیں ہو گا۔۔ یہ میری خوشی ہے۔ میری خوشی سمجھ کر رکھ لیا کرو۔"

میں اکثر ہی اس کی مٹھی میں کبھی لال ' کبھی ہرے اور کبھی ایک ادھ نیلا نوٹ دبا ہی دیتا۔ محبت کے اظہار کا کوئی انوکھا اور اچھوتا طریقہ نہ مجھے آتا تھا۔ نہ میرے پاس وقت ہوتا تھا۔

" کیا بات ہے سوہنیو! کبھی ہماری بھی مٹھی گرم کر دیا کرو۔ ہم بھی تمہارے سجن ہی ہیں۔ دشمن تو نہیں۔"

اس کا پنا ہی تپانے والا مخصوص انداز تھا۔ جو مجھے ایک آنکھ نا بھاتا تھا۔ شگفتہ اس کو جواب دینے کی بجاۓ ادھر ادھر دیکھنے لگی۔

" تو میرا چاچا لگتا ہے؟"

" او یار! میں تو رکھوالی کرنے آ جاتا ہوں۔ کوئی ادھر ادھر سے تمہیں تاڑ تو نہیں رہا۔"

میں تپ کر اس کے ہاتھ پر کچھ نہ کچھ رکھ ہی دیتا۔

اللہ کے فضل سے میں محلے کا سب سے خوبرو اور پڑھا لکھا جوان تھا اور کچھ ٹور بنانے کا شوق بھی مگر اس سب کے باوجود میں نہیں چاہتا تھا کہ شگفتہ کے اوپر میرے حوالے سے کبھی انگلیاں اٹھیں۔ جب ہی میں اسے امجد کی چھت تک انے سے منع ہی کرتا تھا۔ اور ایک دن وقت نے ثابت کیا کہ اس کی طرف سے برتی جانے والی یہ احتیاط بھی فائدہ مند رہی۔

ایک دن منڈیر سے لٹکا امجد چونک کر پیچھے ہوا اور شگفتہ سے بولا ۔

" اے شگو! تیرا ابا گھر پر نہیں تھا کیا۔"

" ہیں؟" شگفتہ اس کی بات سمجھ نہ سکی۔

" میں نے ابھی ابھی اسے باہر سے گھر میں گھستے دیکھا ہے۔"

" ہاۓ میں مر گئی ۔" وہ بری طرح گھبرا گئی۔

" اب کیا کروں۔ ہاۓ اللہ ظفر! وہ تو پورے گھر میں مجھے ڈھونڈ ڈھانڈ کر چھت پر آتے ہی ہوں گے۔"

" چل تو ایسا کر میرے گھر سے نکل۔ کہہ دینا کہ کسی سہیلی کے گھر سے آئی ہوں۔" اس نے فٹا فٹ حل پیش کیا۔ مین کھولے پاگلوں کی طرح انہیں دیکھتا ہی رہ گیا۔

" اب تو بھی نکل شہزادے! سڑی دھوپ میں کیا حسن برباد کرنا ہے اپنا۔" میں سخت بد مزہ ہو کر اٹھا۔

" اور شکر کر ۔۔۔۔۔ تیرے یار نے پہرا دینے کی ڈیوٹی سنبھالی ہوئی ہے۔ ورنہ آج تو ادھر ہی دھر لیتا اس کا ابا تجھے۔ چل اب نکل جلدی۔"

اس نے بھرتی زبان کے ساتھمجھے منڈیر کی طرف دھکیلا۔ شگفتہ پہلے ہی نیچے جا چکی تھی۔

اتوار کا دن تھا۔

اماں ثوبیہ کے لیے بنواۓ گئےعنابی مخمیلں لحاف گدے اور نئی نکور رضائیوں کو دھوپ لگوا رہی تھیں۔اماں نے تھوڑا تھوڑا کر کے اتناجمع کر لیا تھا کہ نہ صرف ثوبی کے جہیز بلکہ شادی میں قیام کے ارادے سے آنے والے مہمانوں کے لیے بھی اچھا انتظام ہو گیا تھا۔

قریبی تخت پر اماں اپنے پان دان میں سے ایک مخملی پوٹلی نکال کر جانے کیا دیکھ رہی رہیں۔ میں ماں کے پاس ہی لیٹا سستی سے سوچ رہا تھا کہ شگفتہ سے ملے کتنے دن ہو گئے تھے۔ میری ہر سوچ شگفتہ سے شروع ہو کر شگفتہ پر ہی ختم ہوتی تھی۔ اسی وقت اماں نے میرا کندھا ہلا کر ایک خوب صورت سا کنگن میری طرف بڑھایا۔

" دیکھ تو زرا۔ کیسا ہے؟"

" بہت خوب صورت ہے اماں!"