SIZE
1 / 7

کیا پکاؤں رات کے لیے۔ منیہ نے کچن سے جھانکا۔

" آۓ کیا پکانا ہے۔ کوئی من و سلوی تو نازل ہونے سے رہا ماش کی دال بنا لو بھنی ہوئی۔ " اماں نے پالک کے پتے چنتے ہوۓ تیز آواز میں کہا۔ وہ ابھی بدھ بازار سے آئی تھیں۔ مغرب سے زرا پہلے کا وقت تھا اور اب وہ کھٹا کھٹ تیزی سے پالک کے پتے چن رہی تھیں۔ اندازا لگانا آسان تھا ۔ کل کے منیو میں پالک تیار ہونا تھا۔ منیہ چابک دستی سے برتن دھو کر ٹھکانے لگا رہی تھی۔ پاس ہی نبیلہ بھابی چولہے پر توا رکھے روٹیاں اتار رہی تھیں۔ اندھیرا پھیلنا شروع ہو چکا تھا۔ شکر تھا کے لائٹ موجود تھی۔ " جلدی سے برتن دھو لوں پھر موٹر لگا کر پانی چڑھاؤں گی۔" منیہ کے فٹا فٹ چلتے ہاتھوں کے ساتھ زبان نے بھی حرکت کی۔

" کیا ہوا پانی کم آ رہا ہے۔" نبیلہ نے پھلکا اتارتے ہوۓ کہا۔

" ہاں اوپر ٹینکی میں پانی ختم ہو گیا ہے۔ شکر ہے ابا نے زیر زمین ٹینک بھی بنوا لیا تھا۔ ورنہ کتنی مصیبت ہوتی پانی کی کتنی کمی ہے۔" منیہ نے عادتا شکر کا کلمہ پڑھا۔

" مما دو دو۔" ڈیڑھ سالہ فہد منہ بسورتا ہوا کچن میں داخل ہوا۔

" جی جانو لے کر آ رہی ہوں میرے بیٹے کو بھوک لگی ہے۔" بھابی نے محبت سے کہا تھا اور جلدی جلدی روٹیاں لپیٹنے لگیں۔

" منیہ یہ پالک دھو کر ابال لو۔ اور جلدی سے چٹنی بھی بنا لو لائٹ کا کوئی بھروسہ نہیں ہے۔" اماں کٹی ہوئی پالک کی پرات اٹھاۓ چلی آئیں۔

" جی اماں آپ صرف پالک خرید کر لائی ہیں۔ کوئی اور سبزی بھی لے آتیں دو دن کی چھٹی ہو جاتی۔" منیہ نے چولہا جلا کر پانی بوائل کرنے رکھا۔

" سبزیوں کو تو آگ لگی ہوئی ہے وہ تو تمہارے ابا نے کئی روز سے پالک پکانے کی فرمائش کر رکھی تھی سو لینی پڑی۔" وہ مڑ کر اندر جاتے جاتے بولیں۔ منیہ اپنے گھر میں سب سے چھوٹی تھی۔ اس سے ایک بہن اور بھائی بڑے تھے۔ اور دونوں پنی شادی شدہ زندگی میں خوش اور مگن تھے۔ آپا کے تین بچے تھے اور بھیا کا ایک بیٹا تھاگھر بھر کی جان فہد۔ ہر اتوار کو مریم آپا میکے کا چکر لگاتی تھیں ۔ ان کے ساس سسر انتقال کر چکے تھے۔ بقیہ نند دیور شادی شدہ اپنے اپنے گھروں میں رہتے تھے۔ اس لیے آپا کو مکمل آزادی تھی۔ ان کی اپنی راجدھانی تھی۔ ہر سنڈے کو آلو گوشت' آلو مرغی' اور آلو قیمہ کا میلہ ضرور لگتا تھا۔ اس کا گھرانہ بہت غریب تو نہیں سفید پوش تھا۔