SIZE
2 / 8

" شمائلہ آنٹی' چیک کر لیں ' میں سب سامان لے آیا ہوں۔"

" آئی ایمان۔" وہ تیزی سے کچن سے برآمد ہوئی تھی' اس کا حلیہ بے حال ہو رہا تھا' پسینے میں بھیگی' کپڑے جسم سے چپکےہوۓ دوپٹہ ندارد' جھک کر ساما" اچھا۔ میں چلتی ہوں' آپ اسے بھیج دیجیے گا۔" سمیرا نے بیٹھنے کے لیے اصرار کیا مگر اس نے منع کر دیا۔

" بچے ٹیوشن سے آنے والے ہیں' مجھے نہ پا کر پریشان ہو جائیں گے۔"

اسی پل ثوبان نے اندر قدم رکھا تھا۔

" السلام و علیکم ایوری ون۔"

" وعلیکم السلام۔" دونوں نے جواب دیا۔

" کیسے ہیں بھائی؟"

" الحمدللہ پرفیکٹ ' بیٹھیں نا ' کھڑی کیوں ہیں؟"

" بس اب جا رہی تھی' اللہ حافظ ' وہ مسکراتی ہوئی چلی گئی۔ اس کا شوہر دبئی ہوتا تھا۔ پہلے وہ ملحقہ قصبے میں اپنی سسرال کے ساتھ رہتی تھی۔ پھر نندیں اپنے گھروں کی ہو گئیں۔ ساس کے انتقال کے بعد اسجد نے اسے یہاں گھر لے کر شفٹ کر دیا۔ اب تو اسےسال سے زیادہ ہو گیا تھا یہاں آۓ ہوۓ بھی بچے چھوٹے سے ' اسکول کے لیے وین لگوائی ہوئی تھی' ٹیوشن قریب ہی پڑھنے جاتے تھے' کئی طرح کے کاموں کے لیے اسے ایمان کی ضرورت پڑتی رہتی تھی ' سمیرا بھی خوش دلی سے ایمان کو بھیجوا دیا کرتی تھی' ویسے بھی وہ بہت محتاط طبعیت کی مالک تھی ' وہ شمائلہ کو ثوبان سے بے تکلف ہونے کا موقع نہیں دینا چاہتی تھی۔

اس لیے بعض اوقات ثوبان کے گھر میں موجود ہونے کے باجود وہ ایمان کو ہی اس کے گھر بھیجتی تھی' صفائی اور کپڑوں کے لیے رکھی ماسی کو بھی وہ نو بجے بلواتی تھی' تاکہ وہ جلد از جلد کام کر کے جاۓ تو وہ اپنے کام کرے ' ماسیوں کے اپنے مالکان کے ساتھ چکر کی کہانیاں سن سن کر اس کے اندر ایسا خوف بیٹھ گیا تھا کہ وہ تو ماسی رکھنا ہی نہیں چاہتی تھی مگر پھر کام کے لوڈ کی وجہ سے رکھنی ہی پڑی۔ وہ دوسری عورتوں کے برعکس جو شوہر اور بچوں کے آفس و اسکول روانہ ہو جانے کے بعد دوبارہ سو جاتی تھیں' پھرتی سے اپنے دن بھر کے کام نمٹا لیتی تھی اور شام کو فریش ہو کرثوبان اور بچوں کو ٹائم دیا کرتی تھی۔

ایمان نے بائیک روکی اور سامن چیک کرنے لگی تو ایمان سٹپٹا کر پیچھے ہوا تھا۔

" میں اب چلتا ہوں۔"

" نہیں' نہیں' ایسے کیسے چلتا ہوں' بیٹھو تو' میں نے تمہارے لیے فریزر میں کولڈ ڈرنک رکھی ہے' ایک منٹ میں لے کر آئی۔"

وہ سب چھوڑ چھاڑ کر کچن کی طرف لپکی تھی۔

ایمان کے خشک ہوتے حلق نے اسے رک جانے پر مجبور کر دیا تھا۔ ٹھنڈی یخ کولڈ ڈرنک نے اس کی پیاس بجھا دی تھی۔ شمائلہ اپنا گلاس لیے اس کے ساتھ ہی بیٹھ گئی تھی۔

" بہت شکریہ ایمان' تم نہ ہوتے تو میرا کیا بنتا؟"

" ڈونٹ مینشن آنٹی" وہ مسکرا کر کہتا اٹھ کھڑا ہوا۔