SIZE
3 / 7

ارد گرد گرم ہوائیں بگولوں کی طرح اٹھی تھیں۔ سیانی اماں کے چہرےپر پسینہ ننھے قطروں کی طرح کرتا زمین میں جذب ہو رہا تھا۔

" میرا منہ نہ کھلوا۔۔۔۔ شوکا دکان دار دوسال چکر لگاتا رہا ۔۔۔۔ مگر سلامت نے تو گونگے کا گڑ کھا لیا۔۔۔۔ بیوی کی باتوں میں آ گیا۔ مفت کی کنیز مل رہی تھی۔۔۔۔ مفت کی چیزیں کون چھوڑتا ہے۔"

میں پتھر بن گئی تھی۔

میں کچھ بھی نہ تھی۔۔۔ میں مفت کی چیز تھی۔ میں نے سیانی کے گھر کے آنگن میں خالی خالی نظریں دوڑائیں ۔ لکڑیوں کے چٹخنے کی آواز پگھلے سیسے کی طرح میری سماعت میں لگ رہی تھی۔ میں نے ساری زندگی اپنے بھرا' بھرجائی کی خدمت میں گزار دی۔۔۔۔ عید کے عید کپڑے ملتے تو میں ان کا احسان مانتی۔۔۔۔ بھرجائی کو آرام دیتے دیتے میرے اپنے ہاتھوں میں چھید ہو گئے۔ بالوں میں چاندی اتر آئی۔ دن کب چڑھتا۔۔۔۔ شام کب ڈھلتی۔۔۔۔ کچھ خبر نہ تھی۔ طویل آنگن میں جھاڑو لگاتے لگاتے کمر میں خم آ گیا تھا۔گھر کا سب سے چھوٹا اور خستہ حال کمرہ میرے پاس تھا ۔ کھڑکی کا ایک پٹ تھا۔بارش ہوتی چھت ٹپکنے لگتی۔ برتن رکھتی' برتن پانی سے بھر جاتے۔۔۔۔ بادلوں کی آوازیں صور اسرافیل کی طرح وجود میں کپکپی دوڑا دیتیں۔ مگر اف تک نہیں کرتی تھی۔ رات کا ساحر اندھیرا جب امرود کے پیڑ پر اترتا تو وحشت بڑھ جاتی۔

میں ڈر کے مارے میلے دوپٹے سے منہ ڈھانپ لیتی۔ اگر ڈر ختم نہ ہوتا تو گھٹ گھٹ کے رونے لگتی۔ مگر ایک بات پر حیرت ہے' ابھی تک میری زبان پر نا شکری کا کلمہ نہ ایا تھا۔

تندور گرم ہو چکا تھا۔ میں نے پرات اٹھائی اور روٹیاں لگانے لگی۔ کم بخت آنکھوں کے سامنے دھند چھا رہی تھی۔ وہ دھند جو کچھ نہ دیکھنے دے۔ اندھا کر دے۔ گرمی میں وجود جل رہا تھا۔ میں ضبط کرتی' روٹیاں لگاتی رہی۔

اماں سیانی چپ سی بیٹھی تھی۔ وہ اکیلی رہتی تھی۔ اس کا فوجی بیٹا لا پتہ تھا۔ اس کی انکھوں میں آج تک انتظار تھا۔ وہ ہر جمعرات نیاز بانٹتی تھیں۔ منڈیروں پر مٹی کے دیے جلاتے ہیں۔ آنگن بچوں سے بھر جاتا تھا۔ سیانی کی بات یاد آ رہی تھی۔ ایک دن اس نے کہا تھا۔

" شاد۔۔۔۔ دعا کرنا میرا بیٹا واپس آ جاۓ ۔۔۔ پھر میں تجھے اپنے گھر بہو بنا کر لے آؤں گی۔"

میں کئی ثانیے ہنستی رہی تھی۔ اپنا جواب آج بھی مجھے یاد تھا۔" سیانی اماں۔۔۔ یہ لالچ نہ دے ۔۔۔۔ میں ویسے ہی دعا کروں گی۔ ہر مان بیٹے کے لیے چاند سی بہو لاتی ہے۔جب تیرا بیٹا آیا تو مجھے کہاں یاد رکھے گی۔" میری آواز میں قدیم زمانوں کی تھکن تھی۔ وہ میرے ہاتھ چومنے لگی تھیں۔

" وعدہ کروں گی۔۔۔ اگر مکروں تو ابلیس کہلاؤں۔۔۔ چہرہ داغ دار ہو تو کچھ نہیں ہوتا شاد۔۔۔۔ خوب صورتی تو دلوں کی ہوتی ہے۔"

کچھ لوگوں کی تسلیاں ' دلاسے دینے کا کیسا ہنر آتا ہے۔ وہ بھی اس ہنر میں ماہر تھیں۔ اوہ۔۔۔ مجھے خیالوں میں کھو جانے کی کیسی بری عادت ہو گئی تھی۔۔ روٹیاں جل چکی تھیں۔ جلنے کی سی کیفیت میرے وجود پر آن وارد ہوئی تھی۔ جلنے کی باس سے میرا جی الٹنے لگا۔ جلدی جلدی روٹیاں اتارنے کی وجہ سے ہاتھوں کی اوپری جگہ سے جلد جھلس گئی تھی۔ جسم کے جلنے کی تکلیف ایک طرف۔۔۔