SIZE
1 / 3

شازیہ سحاب

" آ میری دھی!"

"رابعی! دیکھ بھائی اکیلا کتنا زور لگا رہا ہے دیکھ بس دو تین پیڑےرہ گۓ ہیں۔"

زرینہ نے پرات میں رکھے پیڑوں میں سے ایک پیڑا اٹھا کر گھوڑی( ہاتھ سے سویاں بنانے والا آلہ) کے منہ میں دبایا اور انگوٹھے کی مدد سے آٹے کو دبانے لگی۔

کل پہلا زورہ تھا اس لیے ہر سال کی طرح اس سال بھی زرینہ نے گھر پر گھوڑی والی سویاں بنانے کی ٹھانی ' کیونکہ یہ کافی مشقت طلب کام تھا اس لیے رمضان سے پہلے ہی وہ یہ کام مکمل کر لیتی اور پھر قریبی رشتہ داروں ' محلے داروں کو نہایت ہی اہتمام کے ساتھ وہ یہ سویاں بطور عیدی بھجواتی۔ آج بھی وہ ان سویوں کو بنانے میں صبح سے جتی ہوئی تھی بلکہ منظور حسین (شوہر) سجاد اور چودہ سالہ رابعہ بھی پیش پیش تھی ' منظور حسین تو جانوروں کو چارہ ڈالنے اٹھ گیا کیونکہ شام ہو چلی تھی۔

" اماں پورے سات لچھے ( سویوں کی مقدار) نکلواۓ ہیں میں نے اب تو ہاتھ بھی دکھنے لگے ہیں۔"

رابعی نے منہ بسورتے ہوۓ ہاتھوں کو دبایا۔

" بس اب جتنے لچھے بھی رہتے ہیں وہ سجو بھائی کے ذمے۔"

لہجے کو ضدی بناتے ہوۓ رابعی نے چور نگاہوں سے اپنے بڑے بھائی کو دیکھا جو چارپائی کی پائنتی سے کس کر باندھی گئی سویوں والی گھوڑی پر اکیلا اپنا پورا زور آزما رہا تھا۔

" اماں! اس دفعہ پورے آٹھ لچھے میں اپنی سہیلی کو دوں گی۔"

" آٹھ کیا تو پورے دس لچھے اپنی سہیلی کو دے دینا۔ آ تو سہی۔" لوہے کی ہتھی کو زور سے گھماتے ہوۓ سجاد نے بہن کو یقین دلایا۔

"چل لچھا رکھ کر آ پورا ہو گیا ہے۔"

زرینہ نے نہایت احتیاط سے گھوڑی کے منہ کے نیچے بنی لوہے کی چھلنی سے اتی میدے اور آٹے کی لمبی لمبی سویوں کو توڑا اور۔

" رابعہ! رابعہ۔۔۔۔ رابعہ بہو!"

" جی جی۔۔۔۔ جی خالہ ۔" کندھے پر دباؤ محسوس کرتے ہوۓ رابعہ اچانک حقیقت کی دنیا میں واپس لوٹی۔

" کہاں گم ہو؟ کب سے اوازیں دے رہی ہوں اور یہ چولہا بند کرو' دیکھ سویوں کا دودھ سوکھ چکا ہے ۔ سویاں نیچے سے لگ رہی ہیں۔"