SIZE
4 / 7

"ارے بیٹا! شکر مانو۔ یہاں تو پورے دن میں صرف تین سے چار گھنٹے جا رہی ہے لائٹ' ورنہ اور جگہوں پر تو اس سے بھی برا حال ہے۔ ہمارے انگریزی کے پروفیسر دوست اپنی بیٹی' داماد سے ملنے لاہور گئے تھے ' بتا رہے تھے کہ وہاں ہر ایک گھنٹےکے بعد ( تین) گھنٹے کے لیے لائٹ جاتی ہے۔"

" کیا ابو! میرا پسندیدہ ٹاک شو انے والا تھا ۔" مہوش کو غصہ ایا۔

" اور میرا پسندیدہ دریمہ بھی ۔" سحرش کیوں پیچھے رہتی۔

" ارے بچو! غصہ تھوک دو' اور بیگم اب چاۓ رہنے دو۔ ایسا کرو کھانا لگا دو۔ تیار تو ہے نا کھانا۔" ابو جان نے امی کو منع کرتے ہوۓ کھانے کی تیاری کا پوچھا' امی نے اثبات میں سر ہلایا۔

" بس تو اج ہم ٹیبل باہر لگاتے ہیں۔ صحن میں اور کینڈل لائٹ ڈنر کریں گے ' چاروں مل کے۔ کیا خیال ہے بچو۔" ابو جان نے دونوں کو چئیر اپ کیا۔

"ہرے۔" سحرش نے نعرہ لگایا۔

" یس ابو۔ لیکن ایک شرط پر ' اپ ہمیں تحریک ازادی کے واقعات سنائیں گے ' جب دادا جان قائد اعظم کے شانہ بشانہ کام کرتے تھے۔"

" بولیے منظور۔" مہوش نے کہتے ہوۓ ہاتھ اگے بڑھایا۔

" منظور ۔" ابو نے اس کے ہاتھوں میں ہاتھ دے دیا۔

" کیا بات ہے۔ چھٹی کے دن بھی آپ تڑکے اٹھ گئے اور یہاں صحن میں کیوں بیٹھے ہیں' اتنا حبس ہو رہا ہے' رات میں تو پھر بھی بہتر موسم تھا ۔"

امی صحن میں آئیں تو ابو کو اپنے اسٹریلوی طوطوں کے پنجرے کے پاس بیٹھے پایا۔ شاید وہ ان سے باتیں کر رہے تھے۔

" ہاں بس' یہ ہفتے میں دو چھٹیاں ہیں تو کیا' انکھ تو جس کی روٹین کی عادت ہے اس پہ ہی کھلتی ہے۔"

" تو جناب پروفیسر صاحب! اب آپ کو دو دن گھر میں برداشت کرنا پڑے گا ہمیں۔" امی نے ہنستے ہوۓ طنز کیا اور صحن میں رکھی کرسی پر بیٹھ گئیں۔

" جی جناب! کیا کریں۔ اب گورنمنٹ کے ملازم ہیں تو رول تو فالو کرنا ہی پڑے گا اور اچھا ہے نا اپ کو تو شکوہ رہتا تھا وقت نہ دینے کا تو اب ایک دن پورا ٹی وی کا ۔" ابو جان نے بھی ہنستے ہوۓ حساب برابر کیا۔

" ٹھیک جا رہے ہیں اپ پروفیسر صاحب! یہ ٹی وی تو کسی طرح میری سوکن سے کم نہیں۔" امی نے جل کر کہا اور ابو مسکرا دیے کہ تیر نشانے پر ہی بیٹھا تھا۔

" ویسے بڑے دنوں کے بعد اپ اپنے پرندوں سے باتیں کرنے کا ۔ یہ بھی تو ہماری طرح حالات اور ماحول کو محسوس کرتے ہیں' بلکہ شاید ہم سے بھی زیادہ کرتے ہیں۔ " ابو نے کہتے ہوۓ ایک ٹھنڈی سانس بھری ' جبکہ امی انہیں غور سے سن رہی تھیں اور ان کی بات سے متفق تھیں۔

" خیر یہ بتاؤ' بچیاں اٹھ گئیں ۔" ابو طوطوں کو دانہ کھلا کر فارغ ہو چکے تھے اور روۓ سخن اب پوری طرح امی کی طرف تھا۔